ویب ڈیسک: پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ کچھ قوتیں پاکستان پیپلز پارٹی کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، کیونکہ انہیں پتا ہے کہ اگر بلاول وزیراعظم بنتا ہے اور بلوچستان کا وزیراعلیٰ جیالا بنتا ہے تو ان کی تمام سازشیں ناکام ہوجائیں گی۔ بلوچستان کے عوام جانتے ہیں لاپتا افراد کا مسئلہ اگر کوئی حل کرسکتا ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کسی کے سامنے نہیں جھکتی۔
تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے ضلع خضدار میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ یہ جانتے ہیں میری رگوں میں بلوچ خون ہے، وہ جانتے ہیں میں شہید بینظیر بھٹو کا بیٹا ہوں، میں بلوچستان کے شہداء کا دکھ سمجھتا ہوں، وہ جانتے ہیں میں بلوچستان کےعوام کے مسائل جانتا ہوں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کو توڑنے والے جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو ان کی سازش کامیاب ہونے نہیں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو عوام کے حق کا سودا نہیں کرتی، پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو بلوچستان کو حق دلاسکتی ہے، غربت اور بےروزگاری کا مقابلہ صرف پیپلز پارٹی کرسکتی ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کی بھول ہیں کہ ہم ڈر جائیں گے، گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے کارکنان پر متعدد حملے ہوئے، ان کاخیال تھا جیالے ان حملوں سے گھبرا جائیں گے، انہوں نے سوچا بچہ ہے خوفزدہ ہو جائے گا، لیکن ہمارا سرکٹ تو سکتا ہے لیکن دہشتگردوں کے سامنے جھک نہیں سکتا۔8 فروری کو عوام کے ووٹ کی طاقت سے ان کو جواب دیں گے، 8 فروری کو تیروں کی بارش ہوگی۔
بلاول نے کہا کہ میں بلوچستان کی خدمت ایسے کروں گا جیسے بیٹا والدہ کی کرتا ہے، میں جو وزیر خارجہ بنا تو آپ کی آواز بن کر بنا، عوام سے درخواست ہے چنو نئی سوچ کو،چنو پی پی پی کو۔
ان کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آکر وفاق کی 17 وزارتوں کو بند کروں گا، بچائے گئے پیسوں کو بلوچستان پر لگاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان آج بھی اندھیرے میں ہیں، بلوچستان کے ہر اضلاع میں گرین انرجی پارک بناؤں گا، بلوچستان میں اپنا سولر پلانٹ لگاؤں گا۔
بلاول بھٹوزرداری کا بی بی سی نیوز کو خصوصی انٹرویو
قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں اگر مخلوط حکومت تشکیل پائی تو وہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف میں سے کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔
بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’میں پی ڈی ایم کے کردار سے پہلے سے مایوس تھا۔ میں میاں صاحب کے کردار سے سخت مایوس ہوں اس لیے آج کل ہمارے فاصلے کافی واضح ہیں اور اگر انھوں نے یہی پرانی سیاست کرنی ہے تو میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔‘
انتخابات کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’ایک زمانے میں ہمارا یہ خیال تھا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی لیکن یہ ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔‘
سیاسی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا ہے کہ اس بار ملک میں ایک بار پھر مخلوط حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے ایسے میں پیپلز پارٹی کس جماعت کا ساتھ دینا چاہے گی؟
اس سوال پربلاول بھٹو نے کہا کہ وہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دینا چاہتے تاہم انھوں نے آزاد امیدواروں کے ساتھ حکومت بنانے کی امید کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میری نظر میں دونوں (عمران خان، نواز شریف) پرانی سیاست کرنا چاہتے ہیں، وہی (سیاست) جو (ہم نے) بار بار ناکام ہوتے ہوئے دیکھی ہے۔ میں پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں میں سے کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہتا۔ ہم ایک نئی سوچ اور جذبے کے ساتھ ملک کے نظام کو بہتری کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ لوگ (ن لیگ، تحریک انصاف) جمہوریت اور ریاست کو اپنی ذاتی انا کی وجہ سے نقصان پہنچاتے ہیں۔
آزاد امیدواروں کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’اکثریت پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر نہیں ہیں، ایسے لوگ ہیں پنجاب میں جو ن لیگ کے مخالف ہیں اور آزاد ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو ایک زمانے میں پی ٹی آئی کے ساتھ تھے یا پی پی پی کے ساتھ تھے اور انھوں نے خود کو ان سے آزاد کروا لیا ہے۔‘
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو آزاد امیدواروں کا ساتھ مل سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب میں انتخابی مہم پر توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم تو چاروں صوبوں میں مہم چلا رہے ہیں۔ بہت سے جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ ہم انتخابات اور جمہوریت کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔‘
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ابھی تو شروعات ہیں اور وہ آگے چل کر بہت کام کریں گے۔
’عمران خان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ مکافاتِ عمل ہے‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہمارے ملک میں سٹینڈرڈ ہائی نہیں ہیں، 2018 میں بہت سے سیاستدان الیکشن نہیں لڑ سکے تھے اور 2013 میں بھی بہت سے سیاستدان الیکشن نہیں لڑ پائے تھے۔‘تاہم انھوں نے عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مکافاتِ عمل ہے۔‘
’اس پورے وقت میں (2013 سے 2018) جو سیاست دان سب سے زیادہ خوش تھا وہ عمران خان تھا۔ یہ مکافات عمل ہے۔ اگر آج وہ آؤٹ ہیں تو انھیں اپنے سیاسی فیصلوں کو بھی دیکھنا چاہیے،انھوں نے اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا، انھوں نے اداروں پر غیر جمہوری انداز میں حملے کیے۔ ہم پاکستان میں رہتے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس قسم کے تشدد کو پاکستان کی ریاست برداشت نہیں کرے گی۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’نفرت اور تقسیم کی سیاست ہمارے پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے، اسے دفن کر کے ہمیں مل کر پاکستان کے مسائل حل کرنے چاہییں اور یہ عمران خان اور نواز شریف نہیں کر سکتے صرف پیپلز پارٹی کر سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی حکومت آئی تو وہ نہیں چاہیں گے کہ ملک میں کوئی سیاسی قیدی ہو۔’خان صاحب نے سب سے زیادہ سیاسی قیدی رکھے، میں نہیں چاہوں گا کہ اگر ہمیں حکومت ملے تو میری حکومت میں ایک بھی سیاسی قیدی ہو۔‘
گذشتہ انتخابات میں نتائج مرتب کرنے والا آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا تھا اور پیپلز پارٹی سمیت چند سیاسی جماعتوں کو نتائج پر بھی بہت تحفظات تھے اور اسی دوران اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے تو ایسے ماضی کے سامنے ہوتے ہوئے میں پیپلز پارٹی آج کتنی پُرامید ہے؟
اس سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ’آر ٹی ایس کی بات تو ابھی دیکھنی پڑے گی لیکن جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی بات ہے تو اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی ہو گی۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ’اس ضمن میں پہلا قدم سیاستدانوں کو اٹھانا پڑے گا اور اگر وہ ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو پھر دوسروں سے کیا امید رکھیں کہ وہ ہماری عزت کریں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ سیاستدان سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست کریں۔