2018 میں بھی پی ٹی آئی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے، تب انتخابی نشان کیسے ملا؟ سپریم کورٹ

10:11 AM, 1 Jul, 2024

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پیج پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا۔پی ٹی آئی کے 2018 میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے، تب انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس پر جائیں گے تو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی کھل جائے گا اگر   الیکشن کمیشن نے کچھ غیر آئینی کیا ہے تو بالکل اڑا دیں گے۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میری چار قانونی معروضات ہیں،پی ٹی آئی نے قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے پارٹی ٹکٹ پر بیرسٹر گوہر کے بطور چیئرمین دستخط ہیں،ٹکٹ جاری کرتے وقت تحریک انصاف کی کوئی قانونی تنظیم نہیں تھی، پارٹی تنظیم انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کرانے کی وجہ سے وجود نہیں رکھتی تھی۔

پیج پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا:جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی ٹکٹ 22 دسمبر کو جاری شدہ ہیں،انٹرا پارٹی انتخابات کیس کا فیصلہ 13 جنوری کا ہے تب تک بیرسٹر گوہر چیئرمین تھے۔

وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات 23 دسمبر کو کالعدم قرار دے دیے تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 26 دسمبر کو معطل ہو چکا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ غلطی کہاں سے ہوئی اور کس نے کی ہے یہ بھی بتائیں۔

وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ کئی امیدواروں نے پارٹی وابستگی نہیں لکھی اسی وجہ سے امیدوار آزاد تصور ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اصل چیز پارٹی ٹکٹ ہے جو نہ ہونے پر امیدوار آزاد تصور ہوگا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اس معاملے پر میں اور آپ ایک پیج پر ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پیج پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ بیرسٹر گوہر کے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس کی قانونی حیثیت نہیں،صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین تھے اور ہیں،صاحبزادہ حامد رضا خود کو پارٹی ٹکٹ جاری کر سکتے تھے،صاحبزادہ حامد رضا نے خود کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا، حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں لکھا کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے جس کا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے،حامد رضا نے پی ٹی آئی کا پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ ریٹرننگ افسر نے حامد رضا کے کاغذات منظور کر لیے تھے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا نے بیان حلفی میں ڈیکلریشن پی ٹی آئی نظریاتی کا جمع کرایا تھا۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ حامد رضا کو آزاد امیدوار قرار دینے سے پہلے کیا ان سے وضاحت مانگی گئی تھی؟

وکیل نے بتایا کہ حامد رضا نے درخواست دے کر شٹل کاک کا انتخابی نشان مانگا تھا،ریکارڈ میں پارٹی ٹکٹ نظریاتی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی میں تضاد پر کوئی نوٹس کیا گیا تھا؟

وکیل نے بتایا کہ ریٹرننگ افسر اسکروٹنی میں صرف امیدوار کی اہلیت دیکھتا ہے انتخابی نشان کا معاملہ نہیں، حامد رضا خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار قرار نہیں دینا چاہتے تھے، حامد رضا ایک سے دوسری جماعت میں چھلانگیں لگاتے رہے، 14 جنوری سے 7 فروری تک تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کروا سکتی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے بھی تو کیا فرق پڑنا تھا؟

وکیل سکندر مہمند نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان مل جاتا اور وہ انتخابات کے لیے اہل ہو جاتی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اس صورتحال میں تو انتخابی شیڈول ہی ڈسٹرب ہو جاتا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کو اتنی خاص رعایت کس قانون کے تحت ملنی تھی؟

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے آ رہا تھا: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے الیکشن کمیشن میں زیر التواء تھا، الیکشن کمیشن 13 جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ پر کیوں ڈال رہا ہے؟۔

 جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی انتخابات تو ہوچکے تھے معاملہ ان کی قانونی حیثیت کا تھا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آرٹیکل 218(3) کے تحت پی ٹی آئی کو رعایت دے سکتے تھے۔کنول شوزب کا موجودہ کیس میں کوئی حق دعویٰ نہیں، کنول شوزب کو توقع تھی کہ وہ امیدوار بن سکتی ہیں، کنول شوزب کی درخواست ناقابل سماعت ہے کیونکہ وہ متاثرہ فریق نہیں۔ الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ کنول شوزب کی درخواست خارج کی جائے۔

وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 4 ارکان اسمبلی سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہوئے، بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہوئے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق 6 امیدواروں کو الیکشن کمیشن نے خود آزاد قرار دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو اس وقت تین دن کا وقت دیا جائے جماعت میں شمولیت کے لیے؟

وکیل نے جواب دیا کہ تین دن کا وقت گزر چکا ہے اب کیسے دیا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کتنے امیدواروں کی پارٹی وابستگی اور ٹکٹ ایک ہی جماعت کے تھے؟

 وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ قابل قبول نہیں تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچی کہ امیدواروں کو آزاد قرار دینا غلط تھا تو 3 دن کا وقت دوبارہ شروع ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے کسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں کی تھی،غلط تشریح کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا پورا موقف خراب ہو جاتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ اس سوال کا جواب دے چکا ہوں، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن لڑا اور نہ ان کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا۔

گزشتہ انتخابات میں باپ پارٹی کو کے پی میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئیں: جسٹس عائشہ ملک

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ گزشتہ انتخابات میں باپ پارٹی کو کے پی میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئی تھیں؟

وکیل نے جواب دیا کہ باپ پارٹی کو نشستیں دینے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا،باپ پارٹی کو نشستیں دینے کے معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی تھی۔

 جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن ایک معاملے پر 2 مختلف موقف کیسے لے سکتا ہے؟

وکیل نے بتایا کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا باپ پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تھا؟ کیا ایسی کوئی پابندی ہے کہ کسی بھی اسمبلی میں نشست ہو تو مخصوص سیٹیں مل سکتی ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ درست ہے کہ آئین و قانون کے مطابق 8 فروری کو 5 عام انتخابات ہوئے تھے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر اسمبلی کے لیے الگ عام انتخابات ہوتے ہیں۔اس کے بعد الٰیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل مکمل کر لیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک وکیل نے ایک کیس میں کچھ موقف اپنایا شام کو کچھ اور، مختلف موقف کا سوال ہونے پر وکیل نے کہا میں اب زیادہ سمجھدار ہوگیا ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن سے اپنے نوٹ میں کچھ معلومات مانگی تھیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کا نوٹ میں نہیں پڑھ سکا۔

وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل کے بعد عدالت نے بیرسٹر گوہر کو روسٹم پر بلایا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ سے پوچھا تھا کہ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا یا نہیں۔

الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا نہیں: بیرسٹر گوہر

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بطور پارٹی امیدوار اور آزاد امیدوار بھی کاغذات جمع کرائے تھے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو صرف ایک فارم دکھایا ہے دوسرا نہیں،عدالتی فیصلہ رات 11بجے آیا جبکہ ہمیں آزاد امیدوار شام 4 بجے ہی قرار دے دیا گیا تھا، ایک امیدوار ایک حلقے کے لیے 4 کاغذات نامزدگی جمع کروا سکتا ہے، پارٹی ٹکٹ کے کئی خواہشمند ہوتے ہیں جسے ٹکٹ ملے وہی امیدوار تصور ہوتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت سے کاغذات نامزدگی چھپائے ہیں۔

معاون وکیل نے کہا کہ فاروق نائیک عدالت نہیں پہنچ سکے۔ پیپلزپارٹی کے وکیل اور شہزاد شوکت نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لیے۔

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جے یو آئی ف الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا رہی ہے،اقلیتوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے مس پرنٹ ہوا تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی، اقلیتوں کے حوالے سے الگ سیکشن موجود ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے درست کام کیا ہے؟

وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئینی ادارے کے ساتھ ہیں۔

مسلم لیگ ن کے بیرسٹر حارث عظمت نے تحریری دلائل جمع کرا دیے تاہم عدالت نے مولوی اقبال حیدر کو دلائل سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے الیکشن نہیں لڑا تو آپ ہمارے لیے کوئی نہیں ہیں،اپنا کیس چلانا ہو تو کالا کوٹ نہیں پہن سکتے۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے دلائل

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی نوٹس پر بطور ایڈووکیٹ جنرل دلائل دوں گا، متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کروا چکا ہوں، الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کے پی میں انتخابات درست نہیں ہوئے؟

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں، گزشتہ انتخابات میں کے پی میں باپ پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، باپ پارٹی کے پاس صوبے میں کوئی جنرل نشست نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ باپ پارٹی میں تین افراد نے شمولیت اختیار کی تھی۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ آزاد کی شمولیت پر الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کو مخصوص نشست دی تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ باپ پارٹی کی بلوچستان میں حکومت تھی، قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی بھی تھے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کے لیے باقاعدہ نیا شیڈول جاری کیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے پہلے اور اب مختلف موقف اپنایا ہے، الیکشن کمیشن آج کہتا ہے گزشتہ انتخابات میں کیا گیا ان کا فیصلہ غلط تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا کے پی حکومت نے اس وقت یہ فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ اگر چیلنج نہیں کیا تھا تو بات ختم، پی ٹی آئی کا 2018 میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے،تب انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس پر جائیں گے تو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی کھل جائے گا۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ باپ پارٹی نے کے پی اسمبلی کے لیے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جو فارمولا الیکشن کمیشن نے پہلے اپنایا تھا اب کیوں نہیں اپنایا جا رہا۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی دلائل مکمل ہوگئے۔

پنجاب اور بلوچستان حکومت نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لیے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لیے۔ معطل شدہ ارکان اسمبلی کے وکیل شاہ خاور نے تحریری دلائل جمع کرا دیے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل کے لیے 45 منٹ مانگ لیے جس پر سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا۔ وقفے کے بعد اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کیلئے مخصوص نشستیں رکھی گئیں، مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین کو پہلی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی 2002 میں ملی، سال 1990 سے 1997 تک خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کر دی گئی تھیں، سترہویں ترمیم کے ذریعے خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں۔

مخصوص نشستوں کیلئے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا: منصور عثمان

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے، مخصوص نشستوں کیلئے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ یہ بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟

 جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ جو فارمولہ آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94 سے متصادم ہے۔

جسٹس عائشہ نے پوچھا کہ کیا مخصوص نشستوں کیلئے 2002 سے یہی فارمولہ چل رہا ہے؟

جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ سال 2002 میں الیکشن ایکٹ 2017 نہیں تھا۔

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولہ نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آزاد امیدواروں کی سیٹیں تو آپ نے شامل کی ہیں نا؟ آزاد امیدواروں کو کم کر دیں تو سیاسی جماعتوں کی مخصوص نشستیں بھی کم ہو جائیں گی، مجھے جو سمجھ آیا اگر آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوتا تو کیا وہ کہیں بھی شامل نہیں ہوگا کیا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا، پڑھتے ہی سب کچھ سمجھ جاتا لیکن میں عام آدمی ہوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین لوگوں کیلئے بنائے جاتے ہیں،وکلا اور ججز کیلئے آئین نہیں بنائے جاتے، آئین لوگوں کی پراپرٹی ہے،آئین ایسے بنایا جاتا ہے کہ میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت چاہتی جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے، کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں۔

 چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے۔

فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو چاہے آزاد امیدوار بنا دے: جسٹس عائشہ

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزاد امیدوار بنا دے۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزاد امیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزاد امیدوار آیا ؟

الیکشن کمیشن نے کچھ غیر آئینی کیا ہے تو بالکل اڑا دیں گے:چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم باریکیوں میں چلے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن خودمختار آئینی ادارہ ہے جس کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں، الیکشن کمیشن حقیر ادارہ نہیں نہ ہی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے، اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئے گا ہم نظرثانی نہیں کر سکتے، ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والا کہتا ہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے، الیکشن کمیشن نے کچھ غیر آئینی کیا ہے تو بالکل اڑا دیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ چیف صاحب کہہ رہے الیکشن کمیشن اتنا زبردست ادارہ ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا فارمولا اور دستاویزات کل طلب کرتے ہوئے سماعت صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ گرشتہ سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا۔

مزیدخبریں