ویب ڈیسک: مسلمان ہمیشہ سےہی بھارت میں غیرمحفوظ رہےمگر پچھلی ایک دہائی سے مسلمانوں کےخلاف کاروائیوں میں سنگین حد تک اضافہ ہوا۔مودی نےہمیشہ مسلمانوں کو اپنی انتہا پسندی کا نشانہ بنایا اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے نام نہاد سیاست کو چمکایا۔مودی پہلے بھی دو بار مسلمان مخالف پروپیگنڈا کو بیساکھی بناتے ہوئے اقتدار پر قابض رہ چکا ہے۔
تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں سے منسلک جائیدادیں، کاروبار اور عبادت گاہیں مودی کے نشانے پر ہیں۔ مودی سرکار نے بھارت میں حالیہ انتخابات سے قبل رواں سال جنوری میں رام مندر کا افتتاح کرتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔
صرف رام مندر ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھارت کی دیگر مساجد بھی مودی کے عتاب کی زد میں آگئیں،مسلمانوں کے خلاف روایتی بغض کا مظاہرہ کرتےہوئے بھارتی انتظامیہ نے غیر قانونی تجاوزات کی آڑ میں مسلمانوں کے گھروں،دکانوں اور مساجد کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
حال ہی میں بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مساجد کو غیر قانونی تجاوزات کا نام دے کر گرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔دہلی میں مساجد کو گرانے کے حالیہ واقعات سے بھارتی مسلمانوں میں غم و غصے اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
بھارتی مسلمانوں کی بڑی تعداد نے مودی سرکار کے اس مجرمانہ اقدام کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کیے، بھارت کے مختلف شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے احتجاج کیا،امریکہ سمیت انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں نے بھارت میں جاری مسلم مخالف اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو جھوٹے اور من گھڑت الزامات پر ہراساں کیا گیا، بھارت میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین، نفرت انگیز تقاریر،گھروں اور اقلیتی مذہبی برادریوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بھارت میں مذہبی تشدد مسلسل جاری رہنے پر افسوس ہے چنانچے بھارت مذہبی اقلیتوں کے خلاف بیان بازی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے،کیا عالمی دباؤ میں آ کر مودی سرکار اپنے مسلم مخالف بیانیے سے پیچھے ہٹے گی یا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے گی؟