ویب ڈیسک:ہولوکاسٹ کی سب سے معمر معلوم ہونے والی زندہ بچ جانے والی خاتون ’ روزگیروں‘ 113 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
’ روزگیروں‘ نے جرمنی اور جاپان، دونوں کے جبر کو برداشت کیا، مگر دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد بھی آٹھ دہائیوں تک زندہ رہیں،ان کی موت کی تصدیق ان کی بیٹی ریہا بینی کاسا (Reha Bennicasa) نے کی ہے۔
بیٹی بینیکاسا نے بتایا کہ گیروں پیر کے روز نیویارک کے بیلمور میں واقع ایک نرسنگ ہوم میں انتقال کر گئیں، نیویارک میں قائم کلیمز کانفرنس (Claims Conference) کے مطابق ہولوکاسٹ کی سب سے معمر زندہ بچ جانے والی شخصیت تھیں۔
گیروں، جن کا پیدائشی نام ’روزا روبوگل‘ تھا، 1912 میں جنوب مشرقی پولینڈ کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں، جو اس وقت روس کا حصہ تھا۔ بچپن میں، وہ ہیمبرگ، جرمنی منتقل ہو گئی تھیں۔
1937 میں، انہوں نے جولیس مانہائم نامی ایک جرمن یہودی سے شادی کی۔ جب وہ نو مہینے کی حاملہ تھیں، تو ان کے شوہر کو وسطی جرمنی کے بوخنوالڈ کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا، جو نازیوں کے سب سے بدنام زمانہ حراستی کیمپوں میں سے ایک تھا، 1938 میں گیروں کی بیٹی، ریہا، پیدا ہوئیں۔
گیروں اپنے شوہر کو بوخن والڈ سے رہا کروانے میں کامیاب ہوگئیں، لیکن انہیں چھ ہفتوں کے اندر چین روانہ ہونا پڑا۔ اس دوران، انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ اپنا سارا زیور، جمع شدہ رقم اور قیمتی اشیاء ایک مرکزی مقام پر جمع کروا دیں، کیونکہ انہیں یہ سامان لے کر جرمنی چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔
جنگ کے بعد، گیروں اور ان کا خاندان امریکہ منتقل ہو گیا۔ انہوں نے بطور نٹنگ انسٹرکٹر کام شروع کیا اور نیویارک کے مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کی۔ آخرکار، انہوں نے کوئنز میں ایک نٹنگ اسٹور کھولا۔
ان کی پہلی شادی طلاق پر ختم ہوئی، اور بعد میں انہوں نے جیک گیروں سے شادی کر لی تھی۔