یورپ کی بےبسی: عالمی امن ٹرمپ کی ہاں یا ناں سے مشروط

01:57 PM, 1 Mar, 2025

ویب ڈیسک :ہم ٹرمپ کے عہد میں جی رہے ہیں۔۔ دنیا کے طاقت ور ترین ملک امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے وائٹ ہاؤس میں 50 منٹ تک جاری رہنے والی دو سربراہان مملکت کی ملاقات  کے بعد  اب  دنیا یورپ کو بےبس اور عالمی امن کو ٹرمپ کی ہاں سے مشروط کررہی ہے۔

  ڈپلومیسی سیاست کا ایک انتہائی نازک‘ باریک مگر مؤثر شعبہ مانا جاتا ہے، اسی طرح جب دو سربراہان مملکت کے درمیان ملاقات ہوتی ہے تو اس کے لئے مہینوں پہلے تیاریاں ہوتی ہیں اور مشترکہ پریس بریفنگ سمیت ہر ایک ایشو پر عالی دماغ بیوروکریٹس اور دانشور گھنٹوں بحث کے بعد چیزیں فائنل کرتے ہیں ۔

 مہمان سربراہ مملکت کے لئے کھانے کا مینو فائنل کرنے سے لے اس کے لئے حفاظتی اقدامات تک انتہائی اعلی سطح پر اقداما ت کئے جاتے ہیں ۔ 

لیکن جو ہم اب دیکھ رہے ہیں وہ مثالی اور غیر معمولی ہے جو شائد پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ۔ 

ملاقات کے دوران میں دونوں رہنماؤں کے درمیان صحافیوں اور کیمروں کے سامنے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

  وائٹ ہاؤس کی کوریج کرنے و الے صحافیوں کے مطابق ملاقات کا منظر نہایت عجیب تھا ۔ وائٹ ہاؤس کی سرگرمیوں کی کوریج کے 20 برس  کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا۔

یوکرینی صحافی ایلیا پونومارینکو نے بھی تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’یہ انتہائی شرمناک ہے۔ وہ کسی بھی ممکنہ بات کو،کسی بھی معمولی نکتے کو زیلنسکی کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بے تاب نظر آ رہے ہیں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’اور یہ سب کچھ پوری دنیا کے سامنے، عالمی میڈیا کے سامنے براہِ راست نشریات میں ہو رہا ہے۔ وہ زیلنسکی کو توڑنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنا رہے ہیں۔‘

ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ اور یوکرینی صدر زیلنسکی کے درمیان  گرما گرمی اور تکرار  کے بعد، ٹرمپ نے اوول آفس میں اپنے مشیروں کو طلب کر لیا جن میں  نائب صدر جے ڈی وینس، سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو، خزانہ کے سکریٹری اسکاٹ بیسنٹ شامل تھے۔ اور کہا کہ یوکرینی صدر کی گردن میں سریا آیا ہوا ہے جیسے یہ جنگ یوکرین سے زیادہ ہماری ہے ۔اس لیے روس سے پہلے اس سے نمٹنا ضروری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس سے مذاکرات نہیں ہو سکتے اور اسے کہو کہ خود بھی اوول آفس سے دفع ہو جائے اور اپنے وفد کو بھی لے جائے ۔حالانکہ ان کے لیے کھانے کا انتظام موجود تھا لیکن ٹرمپ نے یوکرینی وفد کو نکال باہر کیا ۔

یہ ہے امریکا کی نئی لیڈر شپ

حیرت کی بات یہ ہے کہ اوول آفس سے نکالے جانے کے بعد زیلنسکی سے یورپی رہنماؤں نے رابطہ کیا اور ا س کی ڈھارس بندھائی، جرمنی ، سپین ، پولینڈ ، لتھوانیا اور اسٹونیا کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ یوکرین کےساتھ کھڑے ہیں لیکن کیا امریکہ کے بغیر یورپ روسی مقابلے کی جرات کر سکتا ہے ؟ ایک طرح سے امریکا نے سارے یورپ کی ہی بجا دی ہے۔ 

یوکرین کے مغربی ریجن لویو کی ریجنل ایڈمنسٹریشن کے سربراہ میکسم کوزیتسکی نے ایکس پر لکھا کہ ’میں واشنگٹن کے واقعات کو بغور دیکھ رہا ہوں۔ انگلینڈ کے پاس رچرڈ دی لائن ہارٹ تھا اور ہمارے پاس وولودیمیر دی لائن ہارٹ ہے۔‘

مزیدخبریں