غازیان گلگت بلتستان کو سلام

10:40 AM, 1 Nov, 2024

ویب ڈیسک: 1947 کی جنگ آزادی میں گلگت بلتستان کے غیور سپاہیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گلگت بلتستان کے بہادر جوانوں کی لازوال قربانیوں کی بدولت دشمن زیر ہوا اور گلگت بلتستان کو آزادی حاصل ہوئی۔

گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے غازیان نے اپنی داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ “میرا نام سپاہی رضا بیگ ہے، میں نے جنگ آزادی گلگت بلتستان میں حصہ لیا، میں 1947 میں بھرتی ہو گیا اور کچھ عرصے میں ٹریننگ کے بعد ہم شاہ خان کی سربراہی میں کارگل کے لیے روانہ ہو گئے”۔“جب ہم پوسٹوں کی طرف جا رہے تھے تو ہندوستانی فوج کی جانب سے شدید بمباری اور فائرنگ ہو رہی تھی، بالآخر ہم پوسٹ پہنچ گئے اور دشمن کے ساتھ مقابلہ شروع کیا”۔

سپاہی رضا بیگ غازی نے بتایا کہ “بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے ان کی دوسری پوسٹوں پر بھی قبضہ کیا اور پاکستانی پرچم لہرانے میں کامیاب ہو گئے”۔ “ہم دشمن سے لڑتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور پورے علاقے سے ہندوستانی فوج کو ختم کیا اور گلگت بلتستان کو آزاد کروایا”۔ “ہم مسلمان ہونے کے ناطے پاکستان کے ساتھ شامل ہو گئے اور ہم نے بہت ہی اچھا فیصلہ کیا تھا۔  “پاکستان زندہ باد ہم دل سے بلتستانی ہیں، دل سے پاکستانی ہیں”۔

لانس نائیک جبار غازی نے کہا کہ “1948 کی جنگ ہم نے بے سروسامانی کے عالم میں لڑی، اس وقت ہمارے پاس اسلحہ بھی نہیں تھا لیکن جذبہ ایمانی، وطن سے محبت اور غیبی طاقت کی وجہ سے ہم نے دشمن کی مضموم عزائم خاک میں ملائے”۔ “جب ہم پوسٹ کی طرف جا رہے تھے تو ہندوستانی فوج کی جانب سے شدید بمباری اور فائرنگ ہو رہی تھی لیکن ہم پرواہ کیے بغیر اللّٰہ کا نام لے کر آگے بڑھتے رہے”۔ “بالآخر ہم نے اپنے مورچے سنبھال لیے اور جوابی فائرنگ شروع کر دی، مسلسل ایک دن فائرنگ کے بعد رات کو ان کی طرف سے خاموشی ہو گئی تو میں نے صوبیدار صاحب سے آگے جانے کی اجازت مانگی”۔

 لانس نائیک جبار غازی کہتے ہیں کہ “پہلے تو صوبیدار صاحب نے آگے جانے کی اجازت نہیں دی لیکن میرے اسرار پر آگے جانے کے لیے مان گئے”۔ “میں چار جوانوں کو ساتھ لے کر آگے روانہ ہو گیا، دشمن کی پوسٹ نالے کے اس پار تھی اور راستہ بہت ہی دشوار تھا نالہ کراس کیا تو ہندوستانی فوجی ہمیں دیکھ کر بھاگنے لگے”۔ “ہم نے ان کا تعاقب کیا اور انہیں زیر کرنے میں کامیاب ہوگئے اور جہنم واصل کر کے ان کی پوسٹ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا”۔

لانس نائیک جبار غازی بتاتے ہیں کہ “اس وقت رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لہذا کچھ دن وہاں قیام کے بعد پھر سے آگے جانے کی اجازت مانگی تو صوبیدار نے کہا جائیں اور دشمن کو ختم کر کے واپس آنا”۔ “اسی دوران دشمن کی جانب سے مسلسل فائرنگ اور بمباری ہو رہی تھی بہت مشکل سے اوپر نکلے تو ان کے پاس بھی راؤنڈ ختم ہو گئے اور ہمارے تو پہلے ہی دریا میں ڈوب گئے تھے”۔ “ہم ڈنڈوں سے حملہ آور ہو گئے اور ان کو مار کر وہاں بھی پاکستانی پرچم لہرا دیا”۔ “اب بھی اگر پاکستان کو میری ضرورت ہوئی تو اپنی پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہو کر پوری طاقت کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کروں گا”۔ “پاکستان ہے تو ہم ہیں”

پاکستانی قوم گلگت بلتستان کے غازیوں کو سلام پیش کرتی ہے۔

مزیدخبریں