ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ضمیرکافیصلہ کرنےوالے،چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

02:55 PM, 1 Oct, 2024

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل نے سپریم کورٹ کے نئے بینچ کی تشکیل پر اعتراض عائد کردیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ججز کمیٹی میٹنگ میں جسٹس منصور علی شاہ کا انتظار کیا گیا مگر ان کے انکار کے بعد ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا۔مزید ریمارکس دیئے کہ جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہی ہوگا، ایک طرف رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کیلئےتھا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔بینچ میں جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔

دوران سماعت صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت اور پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔

چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو بعد میں سنیں گے ابھی آپ بیٹھ جائیں۔

علی ظفر نے کہا کہ ہمیں بینچ کی تشکیل نو پر اعتراض ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ سے کہا ہے کہ آپ کو بعد میں سنیں گے، ہم چیزوں کو اچھے انداز میں چلانا چاہتے ہیں آپ بیٹھ جائیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جو ہوا ہے، وہ کورٹ میں بتادوں، کل جسٹس منیب اختر کو خط لکھا، اُنہوں نے وہ پوزیشن برقراررکھی، میں نے جسٹس منصورعلی شاہ کو کمیٹی میں بلایا، وہ نہیں آئے، ان کے سیکرٹری سے رابطہ کیا تو اُن کے اسٹاف نے اُن سے رابطہ کیا، اسٹاف نے بتایا کہ جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا، میں نہیں چاہتا دوسرے بینچز کو ڈسٹرب کیا جائے، نعیم افغان کو نئے لارجر بینچ میں شامل کرلیا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے آج کے اجلاس کے منٹس جاری کیے، کمیٹی کے منٹس سپریم کورٹ ویب سائٹ پربھی اپ لوڈ کردیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آج کل سب کومعلوم ہے سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے، آج کل سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہورہا، اب لارجر بینچ مکمل ہے کارروائی شروع کی جائے۔

سپریم کورٹ بار کے وکیل اور صدر شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 18 مارچ کو سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی، 21 مارچ کو 4 سوالات پر مبنی صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ریفرنس اور آپ کی درخواستوں کو ایک ساتھ سنا جاسکتا تھا؟۔

سپریم کورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ 27 مارچ اس وقت کے وزیراعظم نے ایک ریلی نکالی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی معاملات پر بات نہ کریں۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور184/3 کی درخواستیں بھی تھیں.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس پر رائے اور 184/3 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کو یکجا کرکے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟ صدراتی ریفرنس پر صرف رائے دی جاسکتی ہے، فیصلہ نہیں دیا جاسکتا، کیا دونوں دائرہ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے، صدراتی ریفرنس پر دی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہین کی کارروائی تو نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں سرپرائزہوں کہ کیسے دو حدود ایک ساتھ کلب کی گئیں۔ اس وقت پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست دی گئی، اس وقت حکومت کس کی تھی؟

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سپریم کورٹ بار کے وکیل شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ اس وقت صدر پاکستان کون تھا؟ ۔

شہزاد شوکت نے بتایا کہ اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہی حکومت بطورِ حکومت بھی اس کیس میں درخواست گزار تھی، شہزاد شوکت نے آرٹیکل 63 اے پڑھ کر سنا دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر کی جانب سے قانونی سوالات کیا اٹھائے گئے تھے؟۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ صدر پاکستان نے ریفرنس میں 4 سوالات اٹھائے تھے، آرٹیکل 63 اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی، عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے کو اکیلا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا، عدالت نے قراردیا کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے اہم ہیں، عدالت نے قراردیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر ہے۔

جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہوگا

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک طرف رائے دی گئی کہ منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہوگا، چیف جسٹس کی رائے میں کہاں کہا گیا کہ ڈی سیٹ ہوگا؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی سیٹ کرنا ہے یا نہیں یہ تو پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کو فیصلہ کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا جینوئن تھا۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جاسکتا، ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا، فیصلے میں آئین پاکستان کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔

آخری جملے پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں بنیادی حقائق مکمل کریں، ریفرنس کے سوال میں انحراف کے لیے کینسر کا لفظ لکھا گیا، یہ لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا؟ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے؟ آپ کو اعتراض اقلیتی فیصلے پر ہے یا اکثریتی فیصلے پر؟۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔

فیصلے میں کہاں لکھا ہے ووٹ کاؤنٹ نہ ہونے پر رکن نااہل ہوگا؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر بندہ نااہل ہوگا؟ یہ فیصلہ تو معاملے کو پارٹی سربراہ پر چھوڑ رہا ہے پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ چاہے تو اسے نااہل کردے، پارٹی سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی ناں تو کیا ہوگا؟۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ دینے اور کاؤنٹ نہ ہونے پر فوری نااہلی ہوگی؟۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں فیصلے میں ایسا نہیں کہا گیا۔

عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جاسکتا ، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جاسکتا، اس کا مطلب ہے آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہوگیا۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ووٹنگ کی مشق ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اسے گنا بھی جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ اقلیتی فیصلے کو بھی چیلنج کرنا چاہیں گے؟ پارلیمانی پارٹی کوئی اور فیصلہ کرے، پارٹی سربراہ کوئی اور فیصلہ کرے تو کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اراکین اسمبلی اگر پارٹی سربراہ یا وزیراعظم یا وزیراعلی کو پسند نہیں کرتے تو کیا ہوگا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اس کا ایک حوالہ اقلیتی فیصلے میں موجود ہے، بلوچستان میں ایک مرتبہ اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف اس کے اراکین تحریک عدم اعتماد لائے تھے۔

لگتا ہے یہ عدالتی فیصلہ عدم اعتماد کی تحریک کو غیر موثر بنانے کے لیے تھا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ دیکھیں کیا ہوا؟ پارٹی کی حکمرانی برقرار رہی لیکن وزیراعظم تبدیل وگیا، یہ عدالتی فیصلہ تو لگتا ہے عدم اعتماد کی تحریک کو غیر موثر بنانے کے لیے تھا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کسی رکن اسمبلی نے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا اس کا فیصلہ کون اور کیسے کرے گا؟ جو لوگ سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں کیا ان کا یہ اقدام بھی ضمیر کی آواز ہوتا ہے؟ میں کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں لینا چاہتا، جو اصول دوسروں کیلئے طے کیا گیا اس کا اطلاق ہم پربھی ہوتا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کا ازخود اطلاق نہیں ہوسکتا، 62ون ایف سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے، اس فیصلے میں لکھا گیا صادق یا امین ہونے کا تعین براہ راست نہیں کیا جاسکتا، کسی کے ضمیر کا معاملہ طے کرنا مشکل ہے۔

 صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ایک مثال موجود نہیں جس میں محض ضمیر کی آواز پر انحراف کیا گیا ہو۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سچ میں ایسا لکھا گیا ہے؟

شہزاد شوکت نے متعلقہ پیراگراف پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ واقعے کے بعد منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی درخواست آئی تھی، اس وقت کے وزیراعظم نے احتجاجی ریلی کی کال دے رکھی تھی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ رکن کو سیشن میں شرکت سے نہیں روکا جائے گا، شہزاد شوکت کی جانب سے دورانِ سماعت سندھ ہاؤس پر حملے کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر حملہ کردیا گیا تھا اور تاثر دیا گیا کہ منحرف اراکین سندھ ہاؤس میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سندھ ہاؤس حملے سے متعلق درخواست سپریم کورٹ میں آئی تھی؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچھ لوگ غائب بھی ہوجاتے ہیں، 63 اے میں طے کردہ اصول تو دودھاری تلوار ہیں، پارلیمانی پارٹی ہیڈ کے بغیر ووٹ دینا یا ووٹ دینے کے بجائے خاموش رہنا بھی عدالتی فیصلے کا حصہ ہے، اگر کوئی ناقد ہے تو کیا بولےگا؟ میرے خیال میں آپ کہنا چاہتے ہیں ووٹ دیں، اگر خاموش رہیں یا مخالفت کریں گے تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج کی حزب اختلاف کی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک لاتی ہیں،حکومتی اراکین بھاگ جاتے ہیں تو پھر بھی اسی فیصلے کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ عدم اعتماد کے دوران سندھ ہاؤس پر حملہ کیا گیا کہ مبینہ منحرف ارکان وہاں رکھے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن سیاست دانوں نے ایک پارٹی چھوڑ کردوسری پارٹی جوائن کی، کیا ان پر بھی تاحیات پابندی عائد کی گئی؟ کیا صدارتی ریفرنس وزیراعظم کی ایڈوائس پر بھیجا گیا تھا یا خود سے صدر نے دائر کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت صدارتی ریفرنس کی مخالف ہے۔

 پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی بھی صدارتی ریفرنس کی مخالف ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار  کیا کہ نظرثانی کی مخالف کون کررہاہے؟
وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے نظرثانی اپیل کی حمایت کردی۔

علی ظفر دوبارہ روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کا وکیل ہوں لیکن نوٹس تاحال موصول نہیں ہوا،میں اس نظر ثانی کی مخالفت کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دیتے ہیں،جو وکلا رہ گئے انکو کل سنیں گے۔یہ آئینی تشریح کا معاملہ ہے جو بھی موقف دینا چاہے سنیں گے۔

سماعت کے اختتام پر بانی چئیرمن عمران خان کے وکیل علی ظفر نے دوبارہ بینچ پر اعتراض کی بات کرتے ہوئے کہا کہ میری بینچ کی تشکیل پر سنجیدہ نوعیت کے اعتراض ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپکو اس حوالے سے لازمی سنیں گے۔

5 رکنی لارجر بینچ کمرہ عدالت نمبر ایک سے اٹھ گیا۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

تحریری حکمہ نامہ جاری

چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا،نظر ثانی درخواست تین دن کی تاخیر سے دائر ہوئی جس پر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا۔

حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ موجود ناہونے پر نظر ثانی تاخیر سے دائر ہوئی،رجسڑار آفس معلوم کرے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا، جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معزرت کی،دوبارہ درخواست پر جسٹس منیب نے دوسرا خط لکھا،رجسڑار نے معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا،ججز کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایاگیا۔

حکمنامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ دوران سماعت کئی سوالات سامنے آئے،سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے،فریقین برطانیہ، امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے آگاہ کریں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے ہماری حاضری لگا لیں۔

گزشتہ سماعت کا احوال

گزشتہ روز آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم کمرہ عدالت پہنچے تاہم جسٹس منیب اختر کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔

بینچ میں شامل سینئر جج جسٹس منیب اختر نے گزشتہ روز بینچ میں شمولیت سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری معذرت کو کیس سننے سے انکار نہ سمجھا جائے۔

گزشتہ روز سماعت جسٹس منیب اختر کی عدم شرکت پر ملتوی کردی گئی تھی تاہم جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو بینچ میں شمولیت سے انکار کرتے ہوئے 2 خط لکھے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کو منانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں راضی کریں گے۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کو 23 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

واضح رہے کہ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔

بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور اس کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔

اس معاملے پر مختلف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟

آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

مزیدخبریں