کاریں،  ایل ای ڈیز، موبائل فون ، سی آئی اے کیا کیا ہیک کرسکتی ہے? 

04:31 PM, 2 Feb, 2024

 ویب ڈیسک   امریکا کی  خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے آپ  کی جدید کاریں محفوظ ہیں نہ ایل ای ڈیز  اور موبائل فون ۔۔ کمپیوٹرز ا، ٹیب اور لیپ ٹاپ تو آسان ترین نشانہ ہیں ۔ نہ صرف آپ کے موبائل فون، لیپ ٹاپ ، ٹیب کے کیمرے اور مائیکرو فون آپ کی مرضی کے بغیر آن کئے جاسکتے ہیں بلکہ آپ کی درست لوکیشن بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔ 

   سی آئی اے کے ہیکنگ ہتھیار ’’ والٹ 7’’

 وکی لیکس کی جانب سے شائع کیے جانے والے سی آئی اے کے ہیکنگ کے مبینہ ہتھیاروں میں ونڈوز، اینڈرائڈ، ایپل کے آئی او سی، او ایس ایکس، لینکس کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ روٹرز کو متاثر کرنے والے وائرس یا نقصان دہ سافٹ وئیر بھی شامل ہیں۔

دستاویزات کے مطابق ہیکنگ میں استعمال ہونے والے چند سافٹ ویئر سی آئی اے نے خود ہی تیار کیے تھے جبکہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو نے سام سنگ کے ٹی وی سیٹس کی ہیکنگ میں استعمال ہونے والے سافٹ ویئر کو تیار کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔

وکی لیکس کے مطابق سی آئی اے گاڑیوں کے کمپیوٹر کنٹرول سسٹم کو ہیک کرنے کے طریقوں پر کام کر رہی تھی اور ممکن ہے کہ یہ طریقہ کار کسی کو مارنے میں استعمال کیا گیا ہو تاکہ حادثے کی وجوہات کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔

اس کے علاوہ ایسے طریقہ کار ایجاد کیے گئے جن کے ذریعے ایسے کمپیوٹرز اور مشینوں کو ہیک کیا جا سکے جو انٹرنیٹ یا کسی غیر محفوظ نیٹ ورکس سے منسلک نہ ہوں۔

اس کے علاوہ دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سی آئی اے نے آئی فونز، آئی پیڈز کو ہدف بنانے کے لیے خصوصی یونٹ قائم کیا جس کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا تھا کہ صارف کس جگہ موجود ہے، ڈیوائسز کے کمیرے اور مائیکرو فون کو آن کیا جا سکتا تھا اور فون کے ٹیکسٹ پیغامات کو پڑھا بھی جا سکتا تھا۔۔ 

40سال قید پانے والا مجرم جوشوا ہولٹ باغی کیوں ہوا?

 یہ سب دوبارہ اس وقت زیر بحث آیا جب امریکی انٹیلیجنس ادارے سی آئی اے کے سابق افسر جوشوا شولٹ کو جمعرات کے روز ایجنسی کے زیرِ استعمال ہیکنگ ہتھیار ’والٹ 7‘ کے بارے میں وکی لیکس کو معلومات مہیا کرنے کے جرم میں 40 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

جوشوا پر بچوں پر جنسی تشدد کی تصاویر رکھنے کا بھی الزام ہے۔

امریکی حکام کے مطابق، 35 سالہ جوشوا نے 2017 میں وکی لیکس کو آٹھ ہزار سات سو سے زائد خفیہ سی آئی اے دستاویزات فراہم کیے۔

انھوں نے خود پر لگے الزامات کی تردید کی مگر نیو یارک میں تین الگ الگ مقدمات میں وہ قصوروار پائے ہیں۔

جوشوا شولٹ نے سشولٹ کے مسائل سی آئی اے کے اندر 2015 میں اس وقت شروع ہوئے جب ساتھی کارکن کے ساتھ جھگڑا کیا اور یہ اس وقت ہوا جب ادارے کی جانب سے ویسا ہی سائبر ٹول بنانے کے لیے اور ایک ورکر کو ہائر کیا گیا تھا جیسا کہ ٹول شولٹ نے بنایا تھا۔

انہوں نے ی آئی اے سینٹر کے شعبہ برائے سائبر انٹیلی جنس میں کام کیا، اور ایسے ٹولز بنائے جن کی مدد سے خفیہ ڈیٹا اس طرح سے لیا گیا جس کی نشاندہی نہیں ہو سکتی تھی۔

مزیدخبریں