آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس:عمران خان کی درخواست خارج،2 ممبران کی کمیٹی درست ہے،سپریم کورٹ

01:47 PM, 2 Oct, 2024

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے خلاف نظرثانی اپیل پر سماعت کے دوران تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔آرڈیننس کے مطابق کمیٹی تین ممبران پر مشتمل ہونی تھی 2 ممبران نے بیٹھ کر 63 اے بنچ تشکیل دیا اس لئے بنچ کی تشکیل غیر قانونی ہے، سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے 2 ممبران کمیٹی کو درست قرار دیکر عمران خان کی بنچ کے خلاف درخواست خارج کردی۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت کررہا ہے جبکہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل ہیں۔

رجسٹرار کی رپورٹ پیش

سماعت کے آغاز پر 63 اے تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہو چکے تھے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے عدالت کو بتایا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، مختصر فیصلہ آ چکا تھا لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی 2 سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔

 پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، میں پہلے ایک بیان دے دوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں بیان نہیں گزارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں۔

علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی؟۔

آج کے دلائل کل سے بھی زیادہ میٹھے ہوں گے: چیف جسٹس

عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ کل کے دلائل بہت میٹھے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ آج کے دلائل کل سے بھی زیادہ میٹھے ہوں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یعنی آپ کو کل کے دلائل پسند آئے تھے۔

جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیئے کہ شیریں اور تلخ کی ملاوٹ سے ہی ذائقہ بنتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج میں تلخ دلائل دوں گا، میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ آفس نے منظور نہیں کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں،درخواست گزار بھی ہیں، ان کو آئین کی سمجھ بوجھ ہے، ان کو معلوم ہے کیا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ ان سے معاملے پر مشاورت کر لوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ یعنی آپ میری بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ آپ کل بھی ملاقات کر سکتے تھے۔

علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے،عدالت کوئی حکم جاری کر دیتی،ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بلایا تھا، وکلا کی ملاقات بھی کرائی تھی۔

یقین تھا آپ ملاقات کی اجازت نہیں دیں گے، وکیل علی ظفر

وکیل علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا آپ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کی درخواست منظور نہیں کریں گے۔

باہر 500 وکلا کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں ہمارے خلاف فیصلہ کیسے آئے گا، پی ٹی آئی وکیل

کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے۔

  چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سے ہیں؟۔

مصطفین کاظمی نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں۔

مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ تمیز سے بات کریں۔

چیف جسٹس کا پی ٹی آئی وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم

مصطفین کاظمی ایڈووکیٹ نے بینچ میں شریک 2 ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیر آئینی ہے، 2 ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہرنکالنے کا حکم دے دیا اور عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔

علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر اب شروع ہوجائیں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہے دے۔

علی ظفر نے ایک بار پھر بنچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، بنچ قانونی نہیں ہے، بنچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔

  چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں۔

علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں۔پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی۔

  چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی۔

علی ظفر نے کہا کہ دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں، یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر دو سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظر ثانی کی درخواست سن رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی: وکیل عمران خان

علی ظفر نے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں کہہ رہا ہوں بنچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3 رکنی کمیٹی بیٹھ کر بنچ بنائے گی، قانون کے مطابق بنچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، قانون میں کمیٹی کے 2 ممبران کے بیٹھ کر بنچ بنانے کی گنجائش نہیں۔

عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں،آپ نے وہ خط پڑھا تو اس کا جواب بھی پڑھنا ہوگا،آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور نے آپ کا حوالہ بھی دیا جب آپ سینئر جج تھے، آپ بھی ایک عرصے تک چیمبر ورک پر چلے گئے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرے اعمال میں شفافیت تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھتا تھا قانون کو بل کی سطح معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلا کر ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں؟، میری نظر میں میرے کولیگ نے جو لکھا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا، کل میں میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائے گی۔

جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بنچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا: علی ظفر

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کل میرے کزن نے مجھے کہا سپریم کورٹ تو برباد ہو گئی ہے، میں نے پوچھا کیا وجہ ہے؟ کزن نے کہا پریکٹس اینڈ پروسیجر کی وجہ سے سپریم کورٹ برباد ہوئی، کزن سے پوچھا کیا آپ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر پڑھا ہے، اس نے کہا نہیں، ہم لوگوں کو قانون پڑھا نہیں سکتے، صرف ضمیر کے مطابق قانون کے تحت فیصلے کر سکتے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منیب 30 ستمبر کو بنچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بنچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سنیارٹی پر بنچ بنتے رہے،آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟

سید مصطفین کاظمی دوبارہ روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ آپ پانچوں غیر قانونی ہیں،ہم دیکھتے ہیں یہ فیصلہ کیسے ہوتا ہے۔ہم 500 وکیل باہر کھڑے ہیں۔

چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ  کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ہمیں دھمکا رہے ہیں۔

سید مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض مسترد کردیا

عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ بینچ قانونی ہے، یہ فیصلہ ہو جائے اس کے بعد ہی میں دلائل دے سکتا ہوں۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے علی ظفر کا اعتراض مسترد کردیا، ججز نے مشاورت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا فیصلہ سنادیں تو ہم نے سنا دیا، ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں گے،آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔

لوگوں کو مرضی کے بینچ بنانے کی عادت ہے، وہ زمانے چلے گئے، چیف جسٹس

جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظر ثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں، کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےریمارکس دیئے کہ یہاں تو فیصلوں کو رجسٹرار سے ختم کروایا جاتا رہا، میں نے بینچ میں انہی ججز کو شامل کرنے کی کوشش کی، کسی کو مجبور نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لوگوں کو یہاں مگر مرضی کے بینچ کی عادت ہے مگر وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہوگی۔

علی طفر نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے سر۔

  چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کا کفارہ کریں، اب ہم جو کرتے ہیں بتا دیتے ہیں، سابقہ دور واپس نہیں آنے دیں گے، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟

نظر ثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے، وکیل عمران خان

علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، نظر ثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے،اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے،پہلے بیٹھ کر اپنے رولز بنا لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے سب نظر ثانی کے مقدمات لگا دیئے ہیں، ڈیڑھ بج چکا، آپ نے میرٹ پر ایک بات نہیں کی۔سادہ سے آئینی سوالات ہیں ان کا جواب دیں، کیا 63 اے فیصلے کی وجہ سے عدم اعتماد سمیت کئی آئینی شقیں غیر فعال ہو گئیں؟

علی ظفر نے جواب میں کہا ٹھیک ہے مگر فیصلہ لکھنے والے جج کے بغیر یہ بینچ کیس نہیں سن سکتا، فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے وہ جج موجود ہی نہیں، اس ادارے کیلئے کچھ کریں۔

علی ظفر کی عمران خان سے ملاقات استدعا منظور

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ دلائل نہیں دے رہے، میرٹ پر دلائل دیں۔

  چیف جسٹس پاکستان نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بہت کوشش کی ہم ناراض ہو جائیں،ہم کم از کم آپ سے ناراض نہیں ہونگے۔

وکیل پیپلز پارٹی فاروق نائیک نے کہا کہ ویسے جس انداز میں آج دلائل دیے گئے میری رائے مزید پختہ ہو چکی ہے ملک میں آئینی عدالت بننی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے مسکراتے ہوئے جواب میں کہا کہ اس پر کچھ نہیں کہوں گا۔

بیرسٹر علی ظفر  نے کہا کہ مجھے اپنے مؤکل سے ملاقات کرنی ہے ہدایات لینی ہیں،کل تک کا وقت دے دیں۔

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بیرسٹر علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کرانے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ   آپ آج شام سے پہلے یا کل صبح 10 بجے سے پہلے ملاقات کرلیں،چاہئے تو دو مرتبہ ملاقات کرلیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل آپکی معاونت کرلیں گے۔

جسٹس مندوخیل نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئےکہا کہ آپ پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین ہیں۔کیا آپ نے وکیل کے کنڈکٹ کا نوٹس لیا۔

وائس چیرمین نے کہا کہ عدالت سے بدتمیزی کرنے والے وکیل کو نوٹس جاری کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرلی، عدالت نے علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیے۔

بعد ازاں  آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز جسٹس منیب اختر کی بینچ میں شمولیت سے انکار کے بعد نیا بینچ تشکیل دیا گیا، ججز کمیٹی نے جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل دیے تھے، وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے نظرثانی درخواستوں کی حمایت کی تھی جبکہ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا تھا۔

سپریم کورٹ نے دوران سماعت اٹھائے گئے سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کر رکھی ہے جبکہ عدالت نے فریقین کو برطانیہ، امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کو 23 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

واضح رہے کہ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔

بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور اس کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔

اس معاملے پر مختلف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟

آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

مزیدخبریں