63 اےنظر ثانی کیس:چیف جسٹس سے بدتمیزی،PTIوکیل کو عدالت سےباہر نکال دیاگیا

02:00 PM, 2 Oct, 2024

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل سید مصطفین کاظمی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، پی ٹی آئی وکیل نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ باہر 500 وکلا کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ آتا ہے جس پر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی جبکہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل تھے۔

کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں۔

مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔

چیف جسٹس کا پی ٹی آئی وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم

مصطفین کاظمی ایڈووکیٹ نے بینچ میں شریک 2 ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیر آئینی ہے، 2 ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہرنکالنے کا حکم دے دیا اور عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے، علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے رہے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر اب شروع ہوجائیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز جسٹس منیب اختر کی بینچ میں شمولیت سے انکار کے بعد نیا بینچ تشکیل دیا گیا، ججز کمیٹی نے جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل دیے تھے، وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے نظرثانی درخواستوں کی حمایت کی تھی جبکہ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا تھا۔

سپریم کورٹ نے دوران سماعت اٹھائے گئے سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کر رکھی ہے جبکہ عدالت نے فریقین کو برطانیہ، امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کو 23 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟

آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

مزیدخبریں