پولیس نے 12 سالہ بچے کو گاڑی ، بائیک چوری سمیت دیگر 51 مقدمات میں نامزد کردیا

05:31 PM, 2 Oct, 2024

(ویب ڈیسک )   لاہور ہائی کورٹ میں 12 سالہ بچے کو گاڑی اور بائیک چوری سمیت دیگر 51 مقدمات میں نامزد کرنے کے خلاف درخواست دائر ہوئی ہے۔ بدھ کے روز عدالت نے سماعت کرتے ہوئے درخواست اعتراض سمیت مقرر کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس شہباز رضوی نے 12 سالہ مزمل کی درخواست پر سماعت کی۔ مزمل ولد لیاقت علی ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور کا رہائشی ہے تاہم ان پر مقدمات ضلع قصور کے تھانہ دیپالپور میں درج ہوئے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ عبدالرزاق کے مطابق ایک بااثر شخصیت نے ضلع قصور کے ایک تھانے میں مزمل کو 51 مختلف مقدمات میں نامزد کروایا ہے۔درخواست گزار کی جانب سے آئی جی پنجاب سمیت ضلع قصور کے متعدد پولیس افسران کو فریق بنایا گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ پولیس افسران نے ایک بار اثر شخصیت کے ایما پر تمام تر جھوٹے مقدمات میں بچے کو نامزد کیا ہے۔ پٹیشن کے متن کے مطابق پولیس کی جانب سے بچے کو دو ایسے مقدمات میں بھی گرفتار کیا گیا جو کہ گرفتاری کے بعد درج ہوئے۔

کم سن بچے کو دو ایسی ایف آئی آرز میں بھی نامزد کیا گیا ہے جو  دوران حراست درج کی گئیں ۔

درخواست کے مطابق ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ کم سن بچے کا ان مقدمات سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ جوڈیشل میجسٹریٹ آلہ آباد قصور کی جانب سے تمام مقدمات میں جسمانی ریمانڈ دیا گیا۔ بعد ازاں جوڈیشل میجسٹریٹ نے کم سن بچے کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھی بھیج دیا۔

ایڈوکیٹ عبدالرزاق نے  بتایا کہ بچے کو ضلع قصور کے تھانہ آلہ آباد میں درج مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔ ان کے بقول ’درخواست گزار کا ایک زمیندار کے ساتھ تین یا چار مربع کے گھر پر جھگڑا چل رہا تھا۔ دونوں جانب سے گالم گلوچ اور تھپڑوں کا تبادلہ ہوا تو زمیندار نے اپنے ایک رشتہ دار کے ذریعے اس بچے کو 51 مقدمات میں نامزد کروایا۔‘ان کے مطابق یہ تمام مقدمات نامعلوم ہیں اور ریمانڈ کے ذریعے بچے سے انکشاف کروایا گیا جس کے بعد بچے کو مقدمات میں نامزد کیا گیا۔

مزمل کے بھائی محمد عباس نے  کہ جھگڑے کے بعد اچانک قصور پولیس نے ان کے بھائی کو 8 ستمبر کو گرفتار کیا اور پھر اسے حوالات میں بند کر دیا۔

ان کے مطابق جن کے ساتھ ان کا جھگڑا ہوا تھا وہ اس معاملے میں براہ راست سامنے نہیں آرہے۔

’ہمیں شک ہے کہ اتنے مقدمات میں میرے بھائی کو اسی جھگڑے کی وجہ سے نامزد کیا گیا ہے۔ با اثر زمیندار نے اپنے کسی رشتہ دار کی توسط سے یہ سب کیا ہے لیکن اب وہ براہ راست سامنے نہیں آرہے۔‘

لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے کم سن بچے کو رہا کرنے کے لیے اڑھائی لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم رقم ادا کرنے کے باوجود مزمل کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جاتا رہا۔

محمد عباس کے بقول ’متعلقہ تفتیشی افسر نے ہم سے رقم کا مطالبہ کیا تو ہم نے بڑی مشکلوں سے 2 لاکھ 30 ہزار روپے اسے دیے لیکن میرے بھائی کو مقدمات سے خارج نہیں کیا گیا۔‘

وکیل درخواست گزار کے مطابق ’کسی بچے کو مقدمے میں تو نامزد کیا جا سکتا ہے لیکن جس طریقے سے اس بچے کو 51 مقدمات میں نامزد کیا گیا اور پھر گرفتاری ہونے کے بعد بھی نامزد کیا جاتا رہا وہ انتہائی غلط ہے۔‘

عدالت نے پٹیشن کو اعتراض کے ساتھ مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وکیل کے مطابق ’عدالت نے اعتراض یہ عائد کیا کہ 51 مقدمات کے لیے الگ الگ رٹ دائر کی جائے۔ لیکن یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ درخواست گزار انتہائی غریب ہے اگر وہ 5000 کے حساب سے بھی مچلکے جمع کرے تو یا 2 سے 3 لاکھ تک کی رقم بنتی ہے جو درخواست گزار کے لیے ممکن نہیں جبکہ عدالت نے کہا ہے کہ الگ الگ رٹ دائر کر کے مقدمات سے نام کا خارج کیا جا سکتا ہے۔‘

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 12 سالہ مزمل کے خلاف درج تمام ایف آئی آرز کے اخراج کا حکم دیا جائے اور آئی جی پنجاب اس حوالے سے ایک انکوائری کروائیں۔

عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ سپرٹینڈنٹ جیل قصور کو بچے کا میڈیکل کروانے کا حکم دیا جائے کیونکہ اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

مزیدخبریں