ویب ڈیسک: تجزیہ کاروں کے مطابق تقریباً ایک ماہ قبل طالبعلموں کے احتجاج کے نتیجے میں بنگلہ دیش سے فرار ہونے والی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد انڈیا میں اپنے میزبانوں کے لیے سفارتی سر درد بن گئی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگست میں شیخ حسینہ کے آمرانہ دور کا خاتمہ اس وقت ہوا جب مظاہرین نے ڈھاکہ میں ان کی سرکاری رہائش گاہ کی جانب مارچ کیا۔
بنگلہ دیشی طلبہ جنہوں نے بغاوت کی قیادت کی تھی، مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ انڈیا سے واپس لوٹیں تاکہ ان پر مظاہرین کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔ ملک سے فرار ہونے سے قبل انڈیا شیخ حسینہ واجد کا سب سے بڑا حامی تھا۔
تاہم 76 برس کی شیخ حسینہ کو واپس بھیجنے سے جنوبی ایشیا میں انڈیا کی ساکھ کمزور ہونے کا خدشہ ہے جہاں وہ چین کے اثر و رسوخ کے خلاف سخت مقابلہ کر رہا ہے۔
تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تھامس کیئن کا کہنا ہے کہ انڈیا انہیں بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔
حوالگی سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ ’پیغام جو خطے کے دیگر رہنماؤں کو جائے گا جو نئی دہلی کے قریب ہیں، زیادہ مثبت نہیں ہو گا کہ انڈیا آپ کی حفاظت نہیں کرے گا۔‘
’اچھے تعلقات چاہتے ہیں‘
نئی دہلی نے گزشتہ سال مالدیپ میں اپنے پسندیدہ صدارتی امیدوار کو ایک حریف سے ہارتے ہوئے دیکھا۔ اسی طرح شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے سے انڈیا خطے میں اپنے قریبی اتحادی سے بھی محروم ہوگیا۔
وہ لوگ جو شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران کی جانے والی زیادتیوں سے متاثر ہوئے تھے، وہ انڈیا مخالف ہیں۔مودی نے 84 سالہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں آنے والی حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
تاہم مودی جنہوں نے ہندو عقیدے کی حمایت کو اپنے دور اقتدار کا ایک اہم حصہ بنایا ہے، نے یونس کی انتظامیہ سے بنگلہ دیش کی ہندو مذہبی اقلیت کے تحفظ کے لیے بھی بار بار زور دیا ہے۔