نئی دہلی: بھارت میں شادی کیلئے لڑکیوں کی عمر بڑھانے کا قانون ابھی منظور نہیں ہوا ہے لیکن کئی شہروں میں مسلم خاندانوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ اس قانون کے نافذ ہونے سے پہلے ہی بھارتی شہر حیدرآباد میں والدین اپنی 18 سال کی بیٹیوں کی شادی میں تاخیر نہیں کرنا چاہتے۔ انہیں ڈر ہے کہ نیا قانون نافذ نہ ہو جائے اور ان کی بیٹیوں کو 18 کے بجائے 21 سال کی ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کی 15 سے 18 سال کی عمر کی 65 لاکھ لڑکیاں ہیں۔ یہ تعداد کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی درست ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی اصلاحات کو نافذ کرنا آسان نہیں ہے. نیا قانون آنے کے بعد تمام قوانین میں ترمیم کرنا ہو گی جس کے بعد تمام مذاہب اور فرقوں میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے بڑھا کر 21 سال ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر اسپیشل میرج ایکٹ 1954 اور ہندو میرج ایکٹ 1955 میں شادی کے لیے لڑکیوں کی عمر 18 سال ہے جسے 21 سال کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ پرہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ 2006 میں بھی تبدیلیاں کرنی ہوں گی کیونکہ اس میں بھی لڑکیوں کی شادی کی عمر ابھی 18 سال ہے۔ مسلم پرسنل لا میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 15 سال سے مانی جاتی ہے۔ بھارتی حکومت اپنے قوانین میں تبدیلی کر سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ قانون مسلم کمیونٹی پر بھی لاگو ہوتا ہے تو ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا۔اس کے لیے ہندوستان کو ایک ملک، ایک قانون یعنی یونیفارم سوک کوڈ کے اصول کو اپنانا ہوگا۔ حالانکہ بھارت میں بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ حکومت ایسا کرے گی اور مسلم کمیونٹی کی لڑکیوں کی شادی کی عمر بھی 21 سال ہو جائے گی۔
اہم بات یہ ہے یہ جب سے بھارت کی مرکزی حکومت نے لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھانے کے لیے قانون لانے کی تیاری کی ہے، تب سے تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں مسلم لڑکیوں کی شادیاں ہورہی ہیں۔ نئے قانون کا خوف اس قدر ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کی شادیاں جلد طے کر رہے ہیں۔ ان میں وہ شادیاں بھی شامل ہیں۔ جس کی شادی کئی ماہ بعد ہونی تھی۔
بھارتی چینل زی نیوز کے مطابق حیدرآباد شہر میں رہنے والے حیدر جعفری کے بڑے بھائی کی 18 سالہ بیٹی کی بھی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ حیدر آباد کے رہائشی علیم قادری نے بھی اپنی بہن کی شادی مقررہ وقت سے پہلے کرادی۔ درحقیقت ان خاندانوں کو خدشہ ہے کہ اگر اب انہوں نے اپنی بہن بیٹیوں کی شادی نہیں کی تو نیا قانون ان پر بھی لاگو ہو جائے گا۔ اس صورت میں، انہیں بھی بیٹی کے 21 سال کی ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ ایسے میں بہت سے خاندان شادی کو فوراً طے کر رہے ہیں۔
17 سالہ مہرنیسہ اور 19 سالہ رخسار خان پڑھائی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کورس کر رہی ہیں۔ جب ان دونوں سے نئے قانون کے بارے میں بات کی تو دونوں کی رائے مختلف تھی۔ مہرنیسہ نے کہا کہ بہت سے خاندانوں کی مالی حالت ایسی ہے کہ وہ 21 سال کی عمر تک انتظار نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب رخسار خاندان کی مجبوری پر یقین رکھتی ہے، پھر بھی 21 سال کی عمر میں شادی کرنے کی حامی ہے۔
مسلم لڑکیوں کی شادیوں میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟ دانشور طبقہ کیا کہتا ہے
بہت سے سماجی کارکن حیدرآباد میں تیز رفتار شادیوں کے لیے حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، جب کہ کئی قاضیوں کا کہنا ہے کہ قانون کے نفاذ سے جرائم کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ مسلم مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ایک پرسنل لا ہے، جس کے مطابق لڑکی 15 سال کے بعد یا حیض شروع ہونے کے بعد شادی کے لیے موزوں ہو جاتی ہے۔ تاہم کچھ مسلم دانشور ایسے ہیں جو شادی کے لیے لڑکیوں کی عمر بڑھا کر 21 سال کرنے کے حق میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حیدرآباد اور اس کے آس پاس ماضی قریب میں 15 ہزار شادیاں کی جاچکی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس بل میں شادی کی عمر کی شق ملک کی تمام برادریوں کے شادی کے قوانین پر لاگو ہوگی، جس کے بعد ملک میں موجود تمام شادی کے قوانین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ ابھی یہ قانون صرف لوک سبھا نے پاس کیا ہے جس کے بعد اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔