مخصوص نشستوں کاکیس،انٹرا پارٹی الیکشن کرالیتے تو سارےمسائل حل ہوجاتے: چیف جسٹس

01:25 PM, 4 Jun, 2024

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی، جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازعہ کی وجہ بنا۔

تفصیلات کے مطابق  چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا 13 رکنی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا ہے جو مخصوص نشستوں کے بارے میں کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کاز لسٹ کے مطابق فل کورٹ بینچ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی علالت کے باعث بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔

سنی اتحاد کے وکیل کے دلائل جاری

سماعت کے آغاز سے ہی سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل جاری ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کر دیا اور کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جا سکتا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنے کا کہا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے انہیں ہدایت کی کہ پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کل جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ سلمان اکرم راجہ نے اسی سے متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی۔

وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، بطور جماعت حصہ نہیں لیا تو آزاد امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، سنی اتحاد کونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی،الیکشن کمیشن نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا تمام دستاویزات موجود ہیں جو سوالات سے متعلق ہیں؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے پاس تمام سوالات ہیں، سب دستاویزات بھی عدالت میں دکھاؤں گا، اس میں کوئی تنازع نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ تنازع کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ بس کہیں کہ الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے اسکے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں،پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں،آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے،ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی،پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیرمتعلقہ ہے،مناسب ہوگا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہوگا،آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا،کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہوگئے۔

جسٹس منیب اختر  نے مزید ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہونگے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کل سے میں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی، تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا ہے، آخری جگہ پارٹی لکھا، اس میں کوئی خاص فرق ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے، پولیٹکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آئین پولیٹکل پارٹی اور پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرتا ہے، آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے، آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کل سنی اتحاد کونسل اور تحریکِ انصاف ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا حریف بننے کے معاملے سے تعلق نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ میں نے آپ کے سوالات سے لفظ پولیٹیکل حذف کر دیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہوئے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟ جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہو گی تو پارلیمانی پارٹی ہی ہو گی۔

اس موقع پر سپریم کورٹ میں پولیٹیکل پارٹی اور پارلیمانی پارٹی کے الفاظ میں فرق پر دلائل دیے گئے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین میں 63 اے کے علاوہ کہیں پارلیمانی پارٹی کا لفظ نہیں دیکھیں گے، آزاد امیدوار وہ ہے جو کسی پارٹی پلیٹ فارم سے انتخابات نہ لڑے۔

تحریکِ انصاف کے امیدوار تو آزاد نہ ہوئے: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جو امیدوار ہمارے سامنے نہیں جن کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں وہ تو سب تحریکِ انصاف کے ہیں، تحریکِ انصاف کے امیدوار تو آپ کو چھوڑ رہے ہیں، آپ کی پارٹی میں نہیں آ رہے، تحریکِ انصاف کے امیدوار تو پھر آزاد نہ ہوئے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ تحریکِ انصاف کے امیدوار انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے،الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو کس بنیاد پر انتخابی نشان دیا؟ الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو انتخابی نشان دیا اور بطور آزاد امیدوار شناخت دی۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازعہ کی وجہ بنا، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

 جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا،قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔ 

فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کیلئے رجوع کیا تھا،الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔

جسٹس عائشہ ملک  نے ریمارکس دیئے کہ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کیلئے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے ریمارکس دیئے کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی،بلے باز والی جماعت کیساتھ کیا ہوا تھا؟۔ 

فیصل صدیقی نے کہا کہ بلے باز والی جماعت کیساتھ انضمام ختم کر دیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہوسکتا؟۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا بہت شکریہ۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا۔ 

جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا،عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں،انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہو جاتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کر رہی تھی لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں،ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا،ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کی دشواری یہ ہے کہ آپ خود کو تحریکِ انصاف کا امیدوار ظاہر کرنا چاہتے تھے، الیکشن کمیشن نے آپ کو کہا کہ تحریکِ انصاف کو بلا نہیں ملا تو آپ کو نہیں دے سکتے، خود کو تب آزاد امیدوار ڈیکلیئر کرتے اور بیٹ مانگ لیتے، قانون نے کہا کہ اپنی پارٹی میں انتخابات کرا لیں،قانون ہم نے نہیں آپ نے بنایا ہے.

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میں آپ کو مشورہ ہی دے سکتا ہوں، پہلے بھی دورانِ سماعت مشورے دیے، آپ نے خود کو تحریکِ انصاف ظاہر کرنا چاہا، آپ کم سے کم بلے کا نشان مانگتے تو سہی، ملنا نہ ملنا سپریم کورٹ بعد میں دیکھتی، آپ مختلف پارٹی سے منسلک ہونا چاہ رہے ہیں، آپ اب آزاد امیدوار نہیں ہیں،الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہمارے پاس چیلنج ہوتے ہیں،خود کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کیا تو بطور آزاد امیدوار نہیں، آپ پارٹی کو ٹھکرا کر آ رہے ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ میں پی ٹی آئی امیدوار نہیں، آزاد امیدوار ہوں۔

جسٹس شاہد وحید نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا تھا؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا گیا، یہ حتمی ہو چکا ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ حتمی ہو چکا ہے تو بحث کا کیا فائدہ؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلے کی وضاحت کر دیتی تو سارے مسائل حل ہو جاتے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی امیدوار ذاتی حیثیت میں الیکشن کمیشن کو درخواست دے دیتے کہ انہیں بلے کا نشان دیا جائے۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایسا نہیں ہو سکتا تھا،اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بلے کا نشان دیا جاتا تو وہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا،اس سے پی ٹی آئی وہ کام بلواسطہ کرتی جو بلا واسطہ نہیں کر سکتی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہمارے فیصلے میں ایسا کچھ لکھا ہے کہ امیدوار کو بلے کا نشان نہیں مل سکتا؟

جسٹس عائشہ ملک کی جانب سے ریمارکس دینے پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوک دیا اور ریمارکس دیئے کہ کیا وکیل جواب نہیں دے سکتے؟آپ عدالتی فیصلے کے ان اثرات کی بات کر رہے ہیں جو ہیں ہی نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی منطق یہ ہے کہ بلے کا نشان کسی کو نہیں مل سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے حلف منطق پر نہیں آئین کی روح پر لیا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں ہلکے پھلے انداز میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں،انتہائی ادب کے ساتھ اگر چیف جسٹس اپنے فیصلے میں ڈسکلیمر دے دیتے کہ فیصلے کا یہ مطلب نہ سمجھائے تو صورتحال تبدیل ہوتی۔

چیف جسٹس  پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ میں ہلکے پھلے انداز میں جواب دیتا ہوں،اگر وہ پارٹی جس کی نمائندگی آپ ہمارے سامنے نہیں کر رہے وہ انٹرا پارٹی انتخابات کروا لیتی تو یہ مسئلہ نہ ہوتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایوان میں زیادہ آزاد میدوار ہوں اور دو سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ہوگا؟کیا ساری مخصوص نشستیں دو سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟ یا ان جماعتوں کو صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟پہلے اس تنازع کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ حقیقی آزاد امیدوار ہوں تو ان کے تو مزے ہو جائیں گے،حقیقی آزاد امیدواروں کو تو دیگر سیاسی جماعتیں لے لیتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ 77 لوگ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہ ہوتے پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی،باقی نشستوں کا کیا ہو گا بعد میں دیکھا جائے گا،یہ نہیں ہو سکتا کہ ان ہی سیاسی جماعتوں کو اضافی نشستیں بھی بانٹ دیں،ایسا کرنے سے پھر متناسب نمائندگی کا اصول کہاں جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین سے بتائیں یہ کہاں ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہے کہا جائے شوہر شادی شدہ نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا،پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو،کس دلیل پر پی ٹی آئی کا یہ موقف مسترد ہوتا، یہ لوگ سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟ یا تو آپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو بات ختم ہے،336 کا نمبر پورا ہونا تو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے سب آزاد آئیں تو کیا ہو گا؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کو نہیں ملیں گی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی سیٹوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی والے سنی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو کیا مخصوص نشستیں خالی رہتی؟آپ خود کہ چکے ہیں کہ ایوان میں کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، سیاسی جماعتوں کو کس تناسب سے نشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھا ہے؟۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ حاصل کی گئی جنرل نشستوں سے ہی سیاسی جماعت کا تناسب نکلے گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی میں 7 ارکان آزاد ہیں،7 سیٹوں پر مخصوص نشست نہیں بنتی۔

چیف جسٹس نے ریمار کس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا منشور ایک تو نہیں ناں؟ پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعت کی ایک اہمیت ہوتی ہے،آئین کو دیکھنا ہے تو پورا دیکھیں مکس اینڈ میچ نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے نہیں کہہ رہے کہ ہم اس کے منشور سے متفق نہیں،کسی رجسٹرسیاسی جماعت کیلئے الیکشن لڑا ہونا کیوں ضروری ہے آزاد امیدواروں کی شمولیت کیلئے؟مجھے اس کے پیچھے کیا دانش ہے وہ سمجھ نہیں آتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھ سے پوچھیں تو اس کے پیچھے معقول وجہ موجود ہے، ایک جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لیتی تو سیاسی عمل کو رد کرتی ہے،برا نہ مانیے گا مگر آپ کی جماعت کا میں نے سنا ہی نہیں ہوا تھا،ہو سکتا ہے باقی لوگوں نے سنا ہو،لوگوں کے سامنے آو تو سہی ان کی نمائندگی تو کرو۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 24 جون صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

کیس کا پسِ منظر
6 مئی کو سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کے کوٹے کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔

3 رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی معطلی صرف اضافی نشستوں کی حدتک قرار دی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔

سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

گزشتہ روز 13 رکنی فل کورٹ بینچ نے کیس کی پہلی سماعت کی تھی۔

مزیدخبریں