توہین عدالت کیس:فیصل واوڈااور تمام ٹی وی چینلز کو شو کاز نوٹسز جاری

01:16 PM, 5 Jun, 2024

ویب ڈیسک: فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت  کے دوران سپریم کورٹ نے مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی اور چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کرنا اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں۔بعد ازاں عدالت نے توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چینلز کو شو کاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ فیصل واوڈا اور کمال مصطفی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مصطفی کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہوکر دوسرے روز پریس کانفرنس کی؟

مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا۔

چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ کیوں آپ لوگ فیصل واوڈا سے متاثر نہیں ہیں،بطور آفیسر آف کورٹ بتائیں آپ کے مؤکل نے توہین کی یا نہیں۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مصطفی کمال نے توہین نہیں کی،مصطفیٰ کمال نے ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی، عدالت غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی ختم کردے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کیوں مانگ رہے ہیں،ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں؟

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ربا اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے زیر التوا ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تکنیکی طور پر وہ ایک الگ ادارہ ہے، پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنے اپنے امور کی انجام دہی کریں،اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کریں،اگر پاکستان کی خدمت کیلئے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں کہ انہوں نے توہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کریں گے،آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی ،اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا ، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے،قوم کو ایک ایسی پارلیمنٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو۔

چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے مکالمہ کیا کہ کہ آپ تو سینیٹر ہیں سینیٹ تو ایوان بالا ہوتا ہے، سینٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی کہے عدالتوں میں تاخیر سے فیصلے ہوتے ہیں تو منصفانہ تنقید ہے،اگر آپ سمجھتے ہیں کہ توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کی بھی ضرورت نہیں،ہمیں قائل کریں نوٹس واپس لیتے ہیں،ایک بات مصطفی کمال کی پریس کانفرنس میں تھی لیکن اس پر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں،بتائیں اس معاملے پر دین کیا کہتا ہے، آپ نے پریس کلب میں بات کی پبلک میں بات کرنا اور تنہائی میں بات کرنے میں فرق ہے۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ دین تو بہت کچھ کہتا ہے،ہم پریس کلب میں پریس کانفرنس کر کے معافی مانگ لیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ میں ججز کے کنڈکٹ کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا،اسی طرح عدالت میں بھی پارلیمنٹ کی کارروائی کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا، ججز کی دوہری شہریت پر بھی قانون پابندی عائد نہیں کرتا۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معافی کی گنجائش اسلام میں قتل پر بھی ہے مگر اعتراف جرم لازم ہے۔معافی کی گنجائش اسلام میں قتل پر بھی ہے مگر اعتراف جرم لازم ہے۔ 

فروغ نسیم  نے کہا کہ اسلام تو اور بھی بہت کچھ کہتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارک دیئے کہ آپ نے پریس کلب میں جا کر تو معافی نہیں مانگی۔

فروغ نسیم  نے کہا کہ اگر یہ شرط ہے تو مصطفی کمال ایسا کرنے پر بھی تیار ہیں،مصطفیٰ کمال کی معافی مانگنے کی وجہ یہ ہے وہ عدلیہ کی عزت کرنا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں؟۔

اٹارنی جنرل  نے کہا کہ ججز کی دوہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی،ججز کے کنڈکٹ پر بات کرنا توہین عدالت میں آتا ہے،ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے دوہری شہریت کا معاملہ نہیں توہین عدالت کا کیس ہے،آئین پاکستان دیکھیں، کتنے خوبصورت الفاظ سے شروع ہوتاہے،جو لوگ گالم گلوج کرتے ہیں کہاں سے اثر لیتےہیں، کیا ایسا دینی فرائض میں ہے؟ہمیں کسی کو توہین کا نوٹس دینے کا شوق نہیں،امام نے فرمایا تھا کسی سے اختلاف ایسے کریں کہ اس کے سر پر چڑیا بیٹھی ہو تو بھی نہ اڑے۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے پر بٹھایا ہے؟ ہم نے نہیں کہا ہمارے فیصلوں پر تنقید نہ کریں،فیصل واوڈا کے وکیل کی بڑی شرعی شکل ہے۔

فیصل واوڈا کے وکیل معیزاحمد روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ اللہ کرے ہمارے اعمال بھی شرعی ہو جائیں۔مجھے متعلقہ آیات یاد نہیں ہیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں علم ہی نہ ہو کہ قرآن میں اس بارے کیا ہے تو کیا کریں،ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوج کو ترویج دیتے ہیں،ٹی وی چینل کہہ دیتے ہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے،ٹی وی چینلز نے 34 منٹ تک یہ تقاریر نشر کیں،کیا اب ان ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کریں؟۔ 

اٹارنی جنرل آف پاکستان  نے کہا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتا ہے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیا ہے کہ کورٹ کی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی،یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی ؟۔

سپریم کورٹ نے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کے پیمراء نوٹیفکیشن کو طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں مگر کورٹ کی کررروائی سے مسئلہ ہے؟

وکیل پیمرا نے کہا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے قران پاک سے عیب گوئی سے متعلق آیات پڑھائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے آجاتے ہمارے سامنے کھڑے ہو کے بات کرتے،ایسی گالم گلوچ کسی اور ملک میں بھی ہوتی ہے،مجھے جتنی گالیاں پڑی ہیں شاید کسی کو نہ پڑی ہوں،کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا،آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا،مجھے اوپر والے سے ڈر لگتا ہے مجھے جس نے گالی دی اسے بھی انصاف دینا ہے۔

وکیل فیصل واوڈا  نے کہا کہ میرے موکل پیمرا سے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے اپنی نہیں آپ کو سننا ہے،آپ وکیل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے وکیل معیزاحمد سے استفسار کیا کہ آپ معافی نہیں مانگناچاہتے؟۔

وکیل معیزاحمد  نے کہا کہ جواب جمع کروایا ہے، عدالت میں پڑھنا چاہتاہوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے کلائنٹ نے کہاکیا؟ پہلے دیکھتے ہی توہین عدالت بنتی یا نہیں؟۔

وکیل معیزاحمد نے کہا کہ میں اس پریس کانفرنس کے بعد  ہونے والے سوال جواب پڑھنا چاہتا ہوں۔

جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے صحافی کے جواب میں واضح کہا کہ بابرستار،اطہرمن اللہ کے خلاف بات کرنے آیا ہوں،آپ نے پریس کانفرنس پاکستان کے لوگوں کے بارے میں نہیں کی،آپ نے دو انتہائی قابل احترام ججز پر بات کی ہے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے،کیا آپ نے کوئی قانون بدلنے کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا،ہم نے کبھی کہا فلاں سینیٹر نے اتنے دن اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی،کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی۔

چیف جسٹس نے استفسار  کیا کہ آپ نے کس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی؟ آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا ؟۔

چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کر جاتے ہیں،جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تو نہ بولیں،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔

مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ پیمرا عدالتی رپورٹنگ پر پابندی نہیں لگا سکتا،پیمرا کو ٹی وی پروگرامز میں ہونے والی بے بنیاد باتوں کو دیکھنا چاہیے۔ 

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ کئی لوگ فیصلوں پر اعتراض کرتے ہیں،پوچھا جائے فیصلہ پڑھا تو جواب ہوتا ہے'نہیں'۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی وی چینلز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم کو توہین کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال نے اپنے کیے پر ندامت دکھانے کے لیے کوئی اور پریس کانفرنس کی؟۔

وکیل مصطفیٰ کمال فروغ نسیم  نے کہا کہ ایسی کوئی بھی پریس کانفرنس نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو وقت دیتے ہیں اس بارے سوچ لیں۔

وکیل حافظ عرفان کو قرآن و حدیث کے حوالوں سے معاونت کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ ہم اب ابھی کچھ بھی نہیں کر رہے پہلے کنڈکٹ دیکھیں گے۔

وکیل فروغ نسیم  نے کہا کہ 16 مئی کے بعد سے اس گفتگو کے حق میں ایک لفظ نہیں بولا۔

اٹارنی جنرل  نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کو اشارہ مل گیا ہے وہ پریس کانفرنس کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ پراسکیوٹر ہیں ایسی بات نہ کریں۔

فروغ نسیم  نے کہا کہ ہم قانون بدلناچاہتے تھے،اس پر شور پڑ جانا تھا۔

چیف جسٹس  نے استفسار کیا کہ شور کیوں پڑنا تھا؟۔

فروغ نسیم نے کہا کہ اس معاملے پر فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا۔

فروغ نسیم نے استدعا کی کہ مصطفیٰ کمال کی حد تک نوٹس واپس لے لیں،مصطفیٰ کمال صرف ربا کو اللہ کے ساتھ جنگ کہتے ہیں،اس کیس کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے تو لگا تھا کہ وہ مذہبی جماعتوں کا کیس ہے، پہلی بار پتا چلا کہ ایم کیو ایم بھی شریک ہے۔

چیف جسٹس نے سماعت کا حکمنامہ لکھوا دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں؟ 

وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔

عدالت نے فیصل واوڈا سے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا جبکہ عدالت نے توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چیلنز کو شو کاز نوٹسز جاری کردیے۔

 بعد ازاں کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی۔

مزیدخبریں