ہیٹی: مسلح گروہ کا حملہ، دارالحکومت کی جیل توڑ دی، ہزاروں قیدی فرار

01:34 PM, 5 Mar, 2024

ویب ڈیسک: ہیٹی کے دارالحکومت میں جیل توڑ کر چار ہزار قیدیوں کے فرار ہونے کے بعد رات کے کرفیو کے ساتھ ہی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مسلح گروہوں نے وزیراعظم کو ہٹانے کی کوشش کے تحت اپنی پرتشدد کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ 

ہیٹی کی حکومت نے ملک کی دو اہم جیلوں کو توڑ کر ہزاروں قیدیوں کے فرار ہونے کے پس منظر میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے سبب دارالحکومت اور اس کے آس پاس 72 گھنٹوں کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے رات کے دوران کرفیو کا اعلان کیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ہفتے کے اواخر میں مسلح گروہوں نے پورٹ او پرنس کی ایک بڑی جیل پر دھاوا بول دیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً چار ہزار قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ 

گینگ لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم ایریل ہنری کو طاقت کے ذریعے استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، جو فی الوقت ملک میں موجود نہیں ہیں۔ حکام نے تشدد کے بڑھتے خطرات کے پیش نظر آئندہ چند روز کے لیے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ رات کے دوران کرفیو بھی نافذ رہے گا۔

اتوار کے روز ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ-او-پرنس میں اس وقت افراتفری پھیل گئی، جب ملک کے مرکزی قید خانے پر حملے کے دوران رابطوں میں خلل پڑا اور بیشتر قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جیل پر دھاوا بولنے والے گینگ کے لیڈر جمی شریزیئر ہیں، جو ماضی میں ایک پولیس افسر تھے۔ انہوں نے ہی ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والے حالیہ تشدد کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد وزیر اعظم ایریل ہنری کو ہٹانا ہے۔

البتہ جیل پر جب دھاوا بولا گیا تو اس دوران ہنری کینیا کا دورہ کر رہے تھے، تاکہ گینگ تشدد کا سامنا کرنے کے لیے سکیورٹی تعاون حاصل کیا جا سکے۔ وہ ملک واپس آنے والے تھے، تاہم وزیر اعظم کا ٹھکانہ ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ 

پورٹ او پرنس کے تقریباً 80 فیصد حصے پر اسی مسلح گروہ کو کنٹرول حاصل ہے، جو وزیراعظم کو بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ ہیٹی کی پولیس یونین نے فوج سے درخواست کی تھی کہ وہ دارالحکومت کی مرکزی جیل کو مزید مضبوط بنانے میں مدد کرے، تاہم اس اقدام سے قبل ہی ہفتے کو دیر گئے اس پر دھاوا بول دیا گیا۔

انسانی حقوق کے گروپ آر این ڈی ڈی ایچ کے مطابق یہ جیل 700 قیدیوں کو رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی، جس میں گزشتہ سال فروری تک تقریباً 3,687 قیدی بند تھے۔ اطلاعات کے مطابق حملے کے بعد اب 100 سے بھی کم لوگ جیل میں باقی بچے ہیں۔

مزیدخبریں