شیخ حسینہ کےخلاف بغاوت،5اہم وجوہات

11:31 AM, 6 Aug, 2024

جواد ملک

ویب ڈیسک : ( جواد ملک )آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں شیخ حسینہ کے خلاف غصہ بڑھتا چلا گیا اور وہ غیر مقبول ہو گئیں اور عوامی غم و غصے کی لہر نے ان کے تخت کو ہلا کر رکھ دیا۔ آئیے جانتے ہیں کچھ اہم وجوہات ۔
اختلاف ظاہر کرنے والوں پر جبر
شیخ حسینہ کی انتظامیہ پر حزب اختلاف کی آوازوں اور اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ ان کے طویل دور اقتدار میں اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں، اظہار رائے کی آزادی کو دبانے اور اختلاف رائے کو دبانے کے واقعات دیکھنے میں آئے اور انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاج کو دبانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حالیہ مظاہروں پر ان کی حکومت کا ردعمل بھی خاص طور پر پرتشدد رہا ہے، مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کی خبریں آئیں ۔

جمہوری اصولوں کو ختم کر دیا

ناقدین کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت نے جمہوری عمل اور اداروں کو کمزور کردیا۔ ان کے دور میں انتخابات دھاندلی اور تشدد کے الزامات میں گھرے رہے۔ سرکاری ایجنسیوں نے ان کی ہدایت پر سازش کی اور اپوزیشن لیڈروں کو جیلوں میں ڈالتی رہیں یا ان کے خلاف مقدمات کا انبار لگا دیا گیا۔ مجموعی طور پر، پولیس اور دیگر سرکاری اداروں نے اپوزیشن رہنماؤں کو پھنسانے کے لیے کام زیادہ کیا۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

حسینہ کی حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں، جن میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں نے ان زیادتیوں کو دستاویزی شکل دی ہے، جس کے نتیجے میں مغربی ممالک نے ان خلاف ورزیوں سے منسلک کچھ سیکورٹی فورسز کے خلاف پابندیاں بھی عائد کیں ۔

نوکریوں میں ریزرویشن

حال ہی میں شیخ حسینہ کی حکومت نے ان لوگوں کو ملازمتوں میں کوٹہ دیا تھا جن کے خاندانوں نے 1971 میں ملک کی آزادی کے لیے جنگ لڑی تھی۔ اس پر طلبہ کا غصہ بھڑک اٹھا ۔ جگہ جگہ مظاہرے ہونے لگے۔ طلبہ کا یہ احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا۔ تشدد ہوا۔ حالانکہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اس کوٹہ کو ختم کر دیا تھا لیکن تب تک پورا ملک مشکل میں تھا۔ اپوزیشن نے بھی اس تحریک کو مزید تقویت دی۔ اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں غصہ مزید بڑھ گیا۔ پچھلے تین دنوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ بنگلہ دیش میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر تشدد، آتش زنی اور افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔

میڈیا سنسر شپ

حسینہ واجد کی انتظامیہ کو آزادی صحافت پر قدغن لگانے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو اکثر ہراساں کیے جانے، قانونی کارروائی یا بندش کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس سے ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بہت سے لوگوں کو حکومتی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرنے پر منفی نتائج کا ڈر ستانے لگا ۔

مزیدخبریں