(ویب ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کےخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا نا شروع کردیا۔حکم نامے میں کہا گیا کہ ایک ہفتے میں کوئی فریق اگر کوئی دستاویزات جمع کروانا چاہتا ہے تو کروا دے ، نیب کا 10 ارب ڈالر ریکوری کا کریڈٹ لینا سرپرائزنگ تھا،اداروں کی جانب سے ایسی غلط دستاویزات جمع نہیں ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل خود ریکوری اور بجٹ کی اصل رپورٹ پیش کریں، نیب کا گزشتہ 10 سال کا سالانہ بجٹ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بانی پی ٹی آئی سے پوچھا کہ کیا آپ ہمیں سن سکتے ہیں، جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جی میں آپ کو سن سکتا ہوں۔
جیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ کیا آپ کیس سے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں،اس پر بانی پی ٹی آئی جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے گزشتہ سماعت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی ، مجھے تکلیف ہوئی کہا گیا کہ میں غیر ذمہ دار سا کریکٹر ہوں اس لئے لائیو نشر نہیں کیا جائے گا ۔
چیف جسٹس قاجی فائز عیسیٰ بولے کہ عدالت اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں کرتی،اپ نظر ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں ۔معزز جج نے بانی پی ٹی آئی کو ہدایت کی کہ آپ اپنے کیس پر رہیں۔
بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتاہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا، مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفےکی قیمت کم لگائی، پونے دو کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی۔
عمران خان نے کہا کہ میں کہتاہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے،ب حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتاتو تھرڈ امپائر تعینات کرتاہے، نیب اس کے بعد تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتاہے، نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا۔
بانی پی ٹی آئی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں جمہوری نظام اخلاقیات، قانون کی بالادستی، احتساب پر ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتےہیں کہ پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ اس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ فارم 47 والے ترمیم نہیں کرسکتے، اس پر جسٹس جمال مند وخیل نے کہا کہ آپ پھر اسی طرف جارہے جو کیسز زیر التوا ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی،آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیاہے،عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہےگا؟ ۔اس پر عمران خان نے کہا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ستائیس سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا، میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں ۔ نیب کو بہتر ہونا چاہیے ، کرپشن کے خلاف ایک اسپیشل ادارے کی ضرورت ہے ۔میں جیل میں ہی ہوں ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو ہو جائے گی ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا ۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دبئی لیکس میں بھی نام آچکے، پیسے ملک سے باہر جارہے ،اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کررہی ہیں،حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں، جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پاک ہے ناپاک، پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔
عمران خان نے عدالت میں کہا کہ بھارت میں اروند کیجریوال کو آزاد کرکے، سزا معطل کرکے انتخابات لڑنے دیاگیا،مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کردیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں، اس پر بانی پی ٹی آءی بولے کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں،بپاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہواہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کچھ بھی ہوگیاتو ہمیں شکوہ آپ سے ہوگا، ہم آپ کی طرف دیکھ رہے، آپ ہماری طرف دیکھ رہے۔
بانی پی ٹی آئی نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روک دیا۔ چیف جسٹس بولے کہ سائفرکیس میں شاید اپیل ہمارے سامنے آئے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں زیرالتوا کیس کی بات نہیں کررہا،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا یہی خدشہ تھاکہ زیرالتوا کیس پر بات نہ کردیں۔
جسٹس حسن اظہر نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ آپ نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیوں نیب بل کی مخالف نہیں کی؟ ،اس پر عمران خان نے کہا کہ یہی وجہ بتانا چاہتاہوں کہ حالات ایسے بن گئے تھے، شرح نمو چھ عشاریہ دو پر تھی، حکومت سازش کے تحت گرا دی گئی، پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو جواب نہیں دے سکتاتھا۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو بانی پی ٹی آئی کے سامنے کردیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ رکن پارلیمنٹ ہیں دشمن نہیں ، پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کریں ، ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ،ہم سیاسی بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے مگر آپ کو روک نہیں رہے ، ڈائیلاگ سے کئی چیزوں کا حل نکلتا ہے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فاروق نائیک صاحب آپ کی بھی ذمہ داری ہے، ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں مگر آپ سیاستدان بھی احساس کریں ۔اس پر فاروق ایچ نائک نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کے دلائل مکمل ہوگئے ۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے معاونت کے لیے بلائے گئے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا آپ کے مؤکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟.
وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب قانون 1999 میں آیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا 1999 میں کس کی حکومت تھی؟ نام لے کر بتائیں، خواجہ حارث نے کہا 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، پرویز مشرف سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اسی طرح کا احتساب ایکٹ تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ کے مؤکل کی حکومت آئی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے، پرویز مشرف نے تو کہا تھا نیب کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنا ہے، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب چلیں آپ میرٹ پر دلائل دے دیں جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بینچ کیسے بنا؟ وجہ بتائیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں طے ہو چکا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بینچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواست کو واپس لگانے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟ باہر کیمرے پر جا کر گالیاں دیں گے یہاں آکر ہمارے سامنے تنقید کریں نا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے ذریعے اٹارنی جنرل کو نوٹس ہوا تھا، اٹارنی جنرل نے کیوں کوشش نہیں کی کہ کیس دوبارہ لگے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت موسم گرما کی تعطیلات شروع ہو چکی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں نے عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا تھا، اس وقت بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا ہے، باہر جا کر بڑے شیر بنتے ہیں لیکن سامنے آکر اس پر مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کی جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا؟
خواجہ حارث نے کہا طاقتور اداروں کی موجودگی کے باوجود اس کیس میں کچھ ثابت نہ ہو سکا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا خواجہ صاحب بتا دیں کون کونسی ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا، آپ نے سیکشن 9 فائیو اے میں ترامیم کو چیلنج کیا تھا، سیکشن 14 کے حذف کرنے کو چیلنج کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا نیب کا مقصد ہی سیاسی انجینئرنگ کے لیے تھا، خواجہ حارث صاحب، آپ اپنے مؤکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں، نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو آپ کے مؤکل کو نقصان ہو گا۔
خواجہ حارث نے دوران دلائل کہا کہ پارلیمنٹ ایسے قوانین نہیں بنا سکتی جو عوامی اعتماد ختم کرے ۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ نیب کے ادارے میں لوگ خود کرپشن کریں کون دیکھے گا ،اس پر خواجہ حارث بولے کہ ادارے پر ادارہ تو نہیں بٹھایا جا سکتا ، جس پر چیف جسٹس بولے کہ کسی پر تو آپ کو بھروسہ کرنا ہوگا ۔
بعد ازاں خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے ۔ عدالت نے کہا کہ وقفے کے بعد بانی پی ٹی آئی کو سنیں گے۔