زندگی بھر کیلئے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، چیف جسٹس

08:39 AM, 6 Oct, 2022

احمد علی
سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کیخلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ زندگی بھر کیلئے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیصل واووڈا کی نااہلی کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ فیصل واووڈا نے شہریت چھوڑنے کی درخواست کب دی تھی؟ وکیل فیصل واوڈا وسیم سجاد نے کہا کہ فیصل واوڈا نے امریکہ سفارتخانےجا کر شہریت چھوڑنے کا کہا تھا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا زبانی بیان پر شہریت چھوڑی جا سکتی ہے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واووڈا کا امریکی پاسپورٹ منسوخ نہیں ہوا تھا؟ فیصل واووڈا کے وکیل کا کہنا تھا کہ اصل سوال تاحیات نااہلی کے ڈیکلریشن کا ہے جو کمیشن نہیں دے سکتا. چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بد دیانت یا بے ایمان نہیں کہا جا سکتا ہے، زندگی بھر کیلئے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، عدالتی ڈیکلریشن کا مطلب ہے شواہد ریکارڈ کیے جائیں، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کر چکی ہے، فیصل واووڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی ہے۔ پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا نے دوہری شہریت کے تحت نااہلی کی استدعا کر دی ہے.وکیل فیصل واوڈا وسیم سجاد نے کہا کہ دوہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا اطلاق ہوتا ہے۔ دوہری شہریت پر رکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں۔ عدالت نے مزید سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی ہے۔
مزیدخبریں