ناگالینڈ: 70 سالوں سے مسلح تحریک کی تاریخ کیا ہے؟

05:39 AM, 7 Dec, 2021

Rana Shahzad
نئی دہلی: (ویب ڈیسک) ناگالینڈ میں 1950ء کی دہائی سے مسلح تصادم جاری ہے۔ اس تحریک کا مطالبہ ہے کہ ناگا لوگوں کا اپنا خود مختار علاقہ ہونا چاہیے جس میں ناگالینڈ کے علاوہ اس کی پڑوسی ریاستوں آسام، منی پور، اروناچل پردیش کے ساتھ ساتھ میانمار کے تمام ناگا آبادی والے علاقے شامل ہوں۔ 1975ء میں ایک معاہدے کے بعد سب سے بڑے ناگا باغی گروپ 'ناگا نیشنل کونسل' نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ لیکن ایک اور دھڑے، نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ ( این ایس سی این) نے معاہدے کی مذمت کی اور لڑائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انڈیا الزام عائد کرتا آیا ہے کہ اس گروپ میں ایسے جنگجو شامل ہیں جنہوں نے چین سے تربیت اور ہتھیار حاصل کیے۔ تاہم، 1997ء میں ٹی موئیوا کی قیادت میں این ایس سی این کے مرکزی دھڑے نے جنگ بندی پر اتفاق کیا اور مرکزی حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کی۔ 2015ء میں دونوں فریقوں کے درمیان دستخط کے بعد، ایک معاہدے کے لیے فریم ورک پر اتفاق کیا گیا، جس نے حتمی معاہدے کی بنیاد رکھی۔ تاہم علیحدہ جھنڈے اور علیحدہ آئین کے مطالبے کی وجہ سے یہ بات چیت ابھی تک پھنسی ہوئی ہے، کیونکہ حکومت ہند ان مطالبات کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ گذشتہ ہفتے کو پیش آنے والا واقعہ دراصل ہندوستانی فوجیوں کے این ایس سی این کے دوسرے دھڑے کے جنگجوؤں کی تلاش کے دوران پیش آیا۔ یہ دھڑا مرکزی حکومت کے ساتھ میووا دھڑے کی بات چیت کی مخالفت کرتا ہے۔ ہندوستان اور میانمار کے درمیان 1,643 کلومیٹر ایک لمبی حد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے پہاڑی ہیں، جن کے دونوں طرف کئی علیحدگی پسند باغی تنظیموں کے ٹھکانے ہیں۔ ایسی ہی تنظیموں میں سے ایک پیپلز لبریشن آرمی ہے جو پڑوسی ریاست منی پور میں سرگرم ہے۔ گذشتہ ماہ پی ایل اے نے آسام رائفلز کے قافلے پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں فوج کے ایک کرنل، ان کی اہلیہ اور کمسن بیٹے سمیت چار فوجی مارے گئے تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فوجی جوان اپنے کمانڈر کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بے چین تھے۔ ساتھ ہی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ باغیوں سے نمٹنے کے لیے فوج کی حکمت عملی اب پرانی ہو چکی ہے۔ طاقت کے ذریعے "علاقے پر غلبہ" کی کوشش کرنا سراسر غلط ہے۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ فوج کو "قابل اعتماد انٹیلی جنس" جمع کرنے کے لیے وہاں کے لوگوں کے "دل ودماغ" جیتنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی شورش زدہ شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ میں بھارتی فوج کی گولیوں سے 15 شہریوں کی ہلاکت کے بعد کشیدگی برقرار ہے۔ انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر مظاہروں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر پابندی لگاتے ہوئے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ ریاست کے مون ضلع میں فوج کے ایک گشت نے کارکنوں کے ایک گروپ کو انتہا پسند سمجھ کر فائرنگ کر دی۔ اس میں 6 افراد مارے گئے۔ فوج نے اسے "غلطی" قرار دیا، لیکن مقامی لوگوں نے فوج کے دعوے کو مسترد کر دیا۔ یہی نہیں اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں کے مشتعل ہجوم کی علاقے میں تعینات فوجیوں کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی۔ اس جھڑپ میں ہندوستانی فوج کے ایک جوان کے علاوہ سات اور لوگ مارے گئے تھے۔ اتوار کی سہ پہر مظاہرین نے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا۔ اس میں ایک شہری کی بھی موت ہو گئی۔
مزیدخبریں