ویب ڈیسک: پی ٹی آئی وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ کی بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کی درخواست پرعدالت نے ریمار دیئے کہ اس کا کیا مطلب ہے اب کوئی قیدی اپنے وکلاء سے بھی نہیں مل سکتا؟ ہم جیل میں وکلاء کی ملاقات نہیں کروا سکتے یہ کوئی بات ہے کرنے والی؟۔بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے رپورٹ اور پولیس دائرہ اختیار سے متعلق دلائل طلب کرتے ہوئےسماعت عید کےاگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ کی بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کی جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مکمل رپورٹ جمع کروانے کے لیے وقت مانگ لیا۔
جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ریمارکس دیئے کہ سپریٹنڈنٹ اڈیالہ کہتے ہیں جیل کے باہر کا اختیار ان کا نہیں تو ,پھر یہ بھی تو بتائیں کس کا اختیار ہے؟۔اگلی سماعت پر بتائیں یہ کس کا دائرہ اختیار ہے۔عدالت نے جیل میں ملاقات کے لیے مختص کمرہ کی تصاویر مانگ لیں۔
شعیب شاہین نے کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے جواب آیا ہے لیکن ملاقات نہ کروانے کی کوئی وجوہات نہیں بتائیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس رپورٹ میں حکومت پنجاب کہہ رہی ہے جیل کے باہر کی ذمہ داریاں ضلعی پولیس کی ہیں۔اسکا کیا مطلب ہے کیا حکومت پنجاب کا اس میں کوئی اختیار نہیں،؟۔
اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ یہ ڈپٹی سیکریٹری جیل خانہ جات کا جواب ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ یہ جواب حکومت پنجاب کا ہے اس میں ان کے دستخط ہیں۔
جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تو یہ ڈائریکشن نہیں دی تھیں۔سکیورٹی پلان کی رپورٹ آئی ہے وہ ملی آپ کو؟۔
شعیب شاہین نے کہا کہ اس رپورٹ میں تو کوئی تھریٹ نہیں ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ بانی چیئرمین کی مرضی کے ساتھ ایس او پیز تیار کی گئیں جن پر عمل ہو رہا ہے۔
جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ریمارکس دیئے کہ سپریٹنڈنٹ اڈیالہ سے اجازت نہ مانگنے اور ایس او پیز فالو نہ کرنے کی بنیاد پر درخواست اس عدالت نے مسترد کی ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ یہ کوئی ڈاکومنٹ بھی اندر نہیں کے جانے دیتے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بینک میں بھی سیکیورٹی کے ایشوز ہوتے ہیں وہاں چیکنگ آسانی سے ہو جاتی ہے،بینک میں سیکیورٹی بھی ہوتی ہے اور وہاں فیسلیٹیٹیشن بھی ہوتی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ مجھے یہ بتائیں باقی جو قیدی ہیں انکے وکلاء کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟کیا انکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے،؟۔
شعیب شاہین نے کہا کہ وکلاء جب جیل میں اپنے کلائنٹ سے ملنے جاتے ہیں ہے تو انکے پاس مختلف دستاویزات ہوتی ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اس قیدی کے معاملے میں درمیان میں شیشہ کی دیوار لگائی ہوئی اس سے تو بات جیت کیسے ہوتی ہے؟کیا دیگر قیدیوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ہر قیدی سے جب ملاقات ہوتی ہے درمیان میں شیشہ کی دیوار موجود ہوتی ہے،شیشہ لگانے کا مقصد منشیات وغیرہ یا دیگر مشکوک چیز جیل میں نہ پہنچائی جا سکے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ دیگر جو قیدی ہیں انکو وکلاء کی اجازت نہیں ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں بتایا کہ انکو وکلاء سے ملنے نہیں دیا جا رہا،پھر سپریم کورٹ نے ملاقات کی اجازت دی۔
اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ اڈیالہ میں سنگین جرائم میں ملوث مجرمان قید ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے اب کوئی قیدی اپنے وکلاء سے بھی نہیں مل سکتا؟ ہم جیل میں وکلاء کی ملاقات نہیں کروا سکتے یہ کوئی بات ہے کرنے والی؟۔
عدالت نے رپورٹ اور پولیس دائرہ اختیار سے متعلق دلائل طلب کرتے ہوئےسماعت عید کےاگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔