ٹک ٹاک سمیت تمام سوشل میڈیا بچوں کے لئے غیر قانونی قرار

03:55 PM, 7 Nov, 2024

 ویب ڈیسک : آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے جمعرات کو 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کا اثر بچوں کو ’حقیقی نقصان‘ پہنچا رہا ہے۔

وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ ٹیک کمپنیوں کو اس عمر کی حد کے نفاذ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور اگر ریگولیٹرز نے کم عمر صارفین کو اس حد کو نظرانداز کرتے ہوئے پایا تو ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے۔

آسٹریلیا ان ممالک میں شامل ہے جو سوشل میڈیا کی اصلاحات کی کوششوں میں سب سے آگے ہیں، اور اس کی تجویز کردہ عمر کی حد بچوں کے لیے دنیا کی سخت ترین پابندیوں میں سے ایک ہو گی۔

البانیز نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں کو بتایا، ’یہ والدین کے لیے ہے۔ سوشل میڈیا بچوں کو حقیقی نقصان پہنچا رہا ہے اور میں اسے ختم کرنے کے لیے اقدام کر رہا ہوں۔‘

نئے قوانین کو اس ہفتے ریاستی اور علاقائی رہنماؤں کے سامنے پیش کرنے کے بعد نومبر کے آخر میں پارلیمنٹ میں متعارف کرایا جائے گا۔

قانون منظور ہونے کے بعد ٹیک پلیٹ فارمز کو ایک سال کی رعایت دی جائے گی تاکہ وہ اس پابندی کو نافذ کرنے کے طریقے وضع کر سکیں۔

البانیز نے کہا، ’ذمہ داری سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہوگی کہ وہ دکھائیں کہ انہوں نے رسائی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پابندی کے ذمہ داری والدین یا بچوں پر نہیں ہو گی۔

فیس بک اور انسٹاگرام کی ملکیتی کمپنی میٹا نے کہا ہے کہ وہ ’حکومت کی متعارف کرائی گئی کسی بھی عمر کی پابندی کا احترام کرے گی۔‘

لیکن میٹا کی سیفٹی سربراہ اینٹیگون ڈیوِس نے کہا کہ آسٹریلیا کو ان پابندیوں کے نفاذ کے طریقہ کار پر غور کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ناقص قوانین ہمیں بہتر محسوس کرا سکتے ہیں جیسے ہم نے کچھ کیا ہے، لیکن نوجوان اور والدین خود کو بہتر حالت میں نہیں پائیں گے۔

سنیپ چیٹ نے انڈسٹری باڈی ڈیجی کے ایک بیان کی طرف اشارہ کیا، جس میں خبردار کیا گیا کہ پابندی سے نوجوانوں کو ’ذہنی صحت کی معاونت‘ تک رسائی سے روکا جا سکتا ہے۔

ڈیجی کی ترجمان نے کہا، ’تیراکی میں بھی خطرات ہیں، لیکن ہم نوجوانوں کو ساحل سے دور نہیں رکھتے، بلکہ انہیں جھنڈوں کے درمیان تیراکی سکھاتے ہیں۔‘

ٹک ٹاک نے کہا کہ اس مرحلے پر ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں۔

ایک وقت میں رابطہ اور معلومات کے ذرائع کے طور پر سراہی جانے والی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اب سائبر دھونس، غیر قانونی مواد کے پھیلاؤ اور انتخابات میں مداخلت کے الزامات نے بدنام کیا ہے۔

البانیز نے کہا، ’میرے سسٹم پر ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جو میں نہیں دیکھنا چاہتا تو ایک حساس 14 سالہ بچے کو ایسی چیزیں کیوں نظر آئیں۔‘

’لڑکیاں خاص جسمانی ساخت کی تصاویر دیکھتی ہیں جو ان پر حقیقی اثر ڈالتی ہیں۔‘

کمیونیکیشنز وزیر مشیل رولینڈ نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں بار بار اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔

انہوں نے البانیز کے ساتھ ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا، ’ سوشل میڈیا کمپنیوں کو خبردار کر دیا گیا ہے۔ انہیں اپنے طریقوں کو محفوظ بنانے کو یقینی بنانا ہو گا۔‘

رولینڈ نے کہا کہ انسٹاگرام، فیس بک، ٹک ٹاک اور ایلون مسک کے ایکس جیسے پلیٹ فارمز کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر مالی جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

رولینڈ نے جرمانے کی درست حد تو نہیں بتائی، لیکن یہ تجویز دی کہ چھ لاکھ امریکی ڈالر کے جرمانے ایسی کمپنیوں کے لیے ناکافی ہوں گے جن کی سالانہ آمدنی اربوں ڈالر میں ہے۔

تجزیہ کاروں کو سخت عمر کی پابندی کو تکنیکی طور پر نافذ کیے جانے کے حوالے سے شکوک ہیں۔

میلبرن یونیورسٹی کے محقق ٹوبی مرے نے اس سال کے شروع میں کہا، ’ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ موجودہ عمر کی تصدیق کے طریقے ناقابل اعتماد، آسانی سے چکمہ دینے کے قابل ہیں، یا صارف کی رازداری کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘

یو ٹیوب جیسے پلیٹ فارمز کے لیے کچھ استثنیات پر غور کیا جائے گا جو نوجوان تعلیمی یا دیگر ضروریات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

آسٹریلیا نے حالیہ برسوں میں ٹیک کمپنیوں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، لیکن اس میں کامیابی محدود رہی ہے۔

اس سال کے اوائل میں ’غلط معلومات سے نمٹنے‘ کا بل متعارف کرایا گیا، جس میں ٹیک کمپنیوں کو آن لائن حفاظتی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی پر جرمانے عائد کرنے کے وسیع اختیارات شامل ہیں۔

آسٹریلیا نے نام نہاد ’ڈیپ فیک‘ پورنوگرافی کو بغیر رضامندی کے شیئر کرنے پر بھی پابندی عائد کی ہے۔

لیکن مسک کے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر مواد کو کنٹرول کرنے کی کوششیں ایک طویل قانونی جنگ میں الجھ گئی ہیں۔

فرانس نے 2023 میں ایسے قوانین پاس کیے ہیں جن میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو صارفین کی عمر کی تصدیق اور اگر وہ 15 سال سے کم عمر ہوں تو والدین کی رضامندی حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

مزیدخبریں