سویلینزکافوجی ٹرائل کیس:اپنی مرضی کے مطابق کیس چلائیں گے،سپریم کورٹ

01:49 PM, 8 Jul, 2024

ویب ڈیسک: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر ملزمان کو ایسی حالت میں رکھا گیا ہے جیسا درخواستگزار کے وکلا بیان کر رہے ہیں تو غلط ہے، بہتر ہوگا اس کیس کو چلا کر فیصلہ کریں۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف داٸر درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شاہد بلال بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ ہفتوں سے ملزمان کے اہلخانہ کو اُن سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔

درخواستگزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملزمان کو بُرے حالات میں رکھا گیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملاقات نہیں ہوئی تو کیسے پتہ کہ برے حالات میں رکھا ہے؟

درخواستگزاروں کے وکلا نے بتایا کہ جو لوگ پہلے ملے ان سے معلوم ہوا کہ ان کے ہاتھ پیچھے بندھے تھے۔

جسٹس جمال خان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جیسا یہ بیان کررہے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر یہ مناسب نہیں۔انسانیت سب سے بڑی چیز ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری معلومات تھیں کہ ہر جمعرات کو ملاقات ہو رہی ہے۔ میں چیک کر لیتا ہوں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ وہ تفصیلی رپورٹ دیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیس کو مکمل ہونے دیں اگر ایسے چلتا رہا تو کیس مکمل ہو ہی جائے گا۔

درخواستگزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے استدعا کی کہ زیرحراست ملزمان کو سویلین حراست میں دیا جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ قانون کی شقیں چیلنج ہیں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

حفیظ اللہ نیازی نے عدالت کو بتایا کہ میرے بیٹے سے جو آخری ملاقات ہوئی اس عدالت کی مہربانی سے ہوئی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ملاقات مہربانی نہیں بلکہ آپ کا حق تھا۔ہم کیس شروع کریں گے تو کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔

عدالت نے جواد ایس خواجہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو بینچ پر اب اعتراض تو نہیں؟

انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس بینچ سے خوش ہیں،استدعا ہے کہ کیس چلا کر فیصلہ کیا جائے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ ہم کیس آپ کی مرضی سے نہیں بلکہ اپنے طریقے سے چلائیں گے۔

جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومتیں جب متاثرہ فریق ہی نہیں تو انہیں کیسے سنا جاسکتا ہے؟

حامد خان لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے پیش ہوئے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہم معاون کے طور پر سن لیں گے۔آپ بار کی جانب سے کیوں فریق بننا چاہتے ہیں؟

حامد خان نے جواب دیا کہ بار کی ایک اپنی پوزیشن ہے اس معاملے پر۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایسا ہے تو آپ کو پہلے اصل کیس میں سامنا آنا چاہیے تھا۔

جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے کہ انٹرا کورٹ اپیلوں میں تو صوبوں کو بھی نہیں سنا جانا چاہیے تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ حامد خان صاحب آپ ہمارا وقت ضائع نہ کریں اصل کیس چلنے دیں،آپ نے بات کرنی ہے تو دیگر وکلا کی معاونت کر دیجیے گا۔

بعد ازاں عدالت نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ حامد خان کو فریق بنانے پر آپ کیا کہتے ہیں؟

وکیل نے جواب دیا کہ مجھے اس مشکل میں نہ ڈالیں،میں نے اس کیس کو براہ راست نشر کرنے کی متفرق درخواست دائر کی ہے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ براہ راست نشر کرنے کی سہولت صرف کورٹ روم ون میں ہے۔

بعد ازاں فیصل صدیقی نے سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست واپس لے لی اور کہا کہ عدالت اس کیس کا جلد فیصلہ کرے، میں ایسی درخواست کی پیروی نہیں کرتا۔

وکیل حامد خان کی فریق بننے کی درخواست 2-5 سے منظور کر لی گئی۔

اس موقع پر انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ اٹارنی جنرل نے عدالت میں پڑھ کر سنایا۔

جسٹس شاہد وحید نے مزید ریمارکس دیئے کہ ہم نے اس کو نظر ثانی کے اسکوپ میں ہی دیکھنا ہے یا مکمل اپیل کے طور پر؟ سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق رولز بنانے تھے جو ابھی نہیں بنے، یہ رولز اب تک بن جانے چاہیے تھے، انٹرا کورٹ اپیل کو لا ریفارمز ایکٹ کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت 11 جولائی تک ملتوی کر دی۔

بعد ازاں عدالت نے حکم نامہ لکھوا دیا۔

حکم نامے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ بار کی فریق بننے کی استدعا منظور کی جاتی ہے، فیصل صدیقی نے بتایا کہ وہ براہ راست نشریات کی درخواست کی پیروی نہیں چاہتے، حفیظ اللہ نیازی نے بتایا ان کے بیٹے گرفتار ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان سے ملاقاتوں کا معاملہ حل ہوچکا تھا حیرانگی ہے کہ ملاقاتیں نہیں ہو رہیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ملزمان سے فیملی ممبران کی ملاقاتیں یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 4 مئی کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس شاہد وحید نے فوجی عدالتوں کے مقدمات کی جلد سماعت کی ضرورت پر روشنی ڈالی تھی کیونکہ اس مقدمے میں جن مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں شہریوں کی زندگی اور ان کی آزادی شامل ہے۔

7 مئی کو فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 24 اپریل کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیل ججز کمیٹی کو واپس بھجوا دی تھی۔

28 مئی کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے اپنے 13 دسمبر 2023 کے حکم نامے میں ترمیم کی تھی جس کے تحت 23 اکتوبر کے اس فیصلے کو معطل کردیا گیا تھا جس نے 9 مئی کے تشدد میں ملوث شہریوں کے خلاف فوجی ٹرائل کو کالعدم قرار دیا تھا۔

مزیدخبریں