ویب ڈیسک : سردی کا موسم آپہنچا ہے۔ دن چھوٹے اور راتیں طویل ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ’’ہائے نومبر ۔وائے دسمبر’’ کی پوسٹیں دھڑ ا دھڑ لگ رہی ہیں۔ اس موسم میں کیا آپ کو بھی کبھی اچانک اداسی کا احساس ہونے لگتا ہے اور سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ یہ احساس بھی شدید تر ہو جاتا ہے؟
اگر ایسا ہے تو آپ تنہا نہیں۔ وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ کی کیفیت موسم کے ساتھ بدلنا شروع ہوجاتی ہے اور انہیں باقاعدہ ذہنی دباؤ اور گھبراہٹ کا احساس ہونے لگتا ہے جسے سیزنل افیکٹیو ڈس آرڈ یا 'سیڈ' (SAD) بھی کہا جاتا ہے۔
طبی ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں اور خاص طور پر سرد موسم میں ذہنی تناؤ کی شکایت کو ایک ذہنی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم اس بارے میں بہت کم ہی لوگ جانتے ہیں۔
امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایک ٹیم نے 1984 میں تحقیق کے بعد موسم سے جڑے ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کی تشخیص کی تھی۔
اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر نورمن روزنتھل کے مطابق اسے یاد رکھنا آسان بنانے کے لیے موسم کی تبدیلی کے باعث ہونے والی اداسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کے نام کا مخفف 'سیڈ' رکھا گیا تھا۔
سردیوں میں ڈپریشن کی وجہ
سائنس دان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سیل روشنی میں پائے جانے والے نیلے رنگ کو کس طرح ایسے سگنلز میں تبدیل کرتے ہیں جو ہمارے موڈ میں تبدیلی اور الرٹ ہونے کے لیے مخصوص ہیں۔
دھوپ نیلی روشنی سے بھرپور ہوتی ہے۔ اسی لیے جب دن میں سورج کی روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے تو ہمارا دماغ زیادہ بیدار اور متحرک رہتا ہے اور اسی وجہ سے زیادہ خوش گوار بھی ہوجاتا ہے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ سے تعلق رکھنے والی محقق کیتھرین روکلین کا کہنا ہے کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 'سیڈ' میں مبتلا افراد نیلی روشنی کے لیے کم حساس ہوتے ہیں اور خاص طور پر سردیوں کے موسم میں یہ حساسیت اور بھی کم ہوجاتی ہے۔
ان کے مطابق موسمِ سرما میں روشنی کم ہوجاتی ہے اور جن افراد میں نیلی روشنی کے لیے حساسیت بھی کم ہو تو سردی کے موسم میں ان کا دماغ اور جسم صحت مند سرگرمیوں کے لیے زیادہ فعال نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔
ییل یونیورسٹی میں ونٹر ڈپریشن ریسرچ کلینک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر پال ڈیسان کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی سے ڈپریشن یا سیڈ کے علاج کے لیے لائٹ تھیراپی کی جاتی ہے۔
اس تھیراپی میں ایک ایسی ڈیوائس کا استعمال کیا جاتا ہے جو انڈور روشنی سے 20 گنا تیز روشنی خارج کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے پاس آنے والے سیڈ کے مریضوں کو یہ تھیراپی دیتے ہیں جن میں سے اکثر مریض کسی دوا کے بغیر ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
اکثر انتہائی سرد علاقوں میں یہ مسئلہ مزید شدید ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ وہاں طویل عرصے تک دھوپ نہیں نکلتی اور گھروں کے اندر بھی روشنی بہت کم ہوتی ہے۔
تحقیق کے مطابق ایسی تھیراپی کے لیے 10 ہزار لکس تک کی روشنی استعمال کرنی چاہیے۔ لکس روشنی کی تیزی کی اکائی ہے۔
ایسی ڈیوائسز بھی بازار میں دستیاب ہیں جو سیڈ سے گزرنے والے افراد کے لیے مفید ہیں اور ایسے افراد کے لیے بھی کارگر ہیں جو روشنی میں کم وقت گزارتے ہیں۔
ییل یونیورسٹی نے ایسی کئی پراڈکٹس کا جائزہ لینے کے بعد ان کی فہرست بھی مرتب کی ہے جن کی روشنی سیڈ سے مقابلہ کرنے والے افراد یا روشنی میں کم وقت گزارنے والوں کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔
ڈپریشن سے جان چھڑانے کے طریقے
سیڈ یا موسمی تبدیلی کے باعث ڈپریشن کا شکار ہونے والے افراد نے خود بھی اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کئی طریقے آزمائے ہیں اور انہوں نے اپنے لیے کئی کارگر طریقے دریافت بھی کیے ہیں۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ ایلزبتھ ویسکوٹ کا کہنا ہے کہ بیک وقت گرم اور ٹھنڈے پانی سے نہانے سے انہیں اپنا موڈ بہتر کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
نیویارک سے تعلق رکھنے والی مریام چیری کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے باغیچے میں ایسے پھول لگائے ہیں جو سردی رخصت ہونے کے ساتھ ہی کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ان کے بقول پھولوں کا کِھلنا انہیں یہ خوش گوار احساس دلاتا ہے کہ بہار بس آنے والی ہے۔