تیل کی قیمتوں میں اضافہ، امریکی سٹاک مارکیٹ میں بڑی گراوٹ
04:24 AM, 9 Mar, 2022
نیویارک: (ویب ڈیسک) وال سٹریٹ پر سٹاکس میں ایک سال سے زائد عرصے کی سب سے بڑی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ سٹاک مارکٹ میں اس گراوٹ کی ایک وجہ یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافے سے عالمی معیشت پر شدید دبائو ہے اور افراطِ زر کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ امریکی تیل کی قیمت 130 ڈالرفی بیرل تک پہنچ گئی ہے، جس کے بعد ایس اینڈ پی انڈیکس تین فیصد گر گئی جو کہ گذشتہ سولہ سال کی اس کی سب سے بڑی گراوٹ ہے اور ساتھ ہی دنیا بھر کے سٹاک بھی دن کے ابتدا ہی میں گر گئے۔ ڈائوجونز میں دو اعشاریہ چار فیصد اور نیسڈیک میں تین اعشاریہ چھ فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ یوکرین میں کشیدگی تک تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث یہ صورتحال برقرار رہ سکتی ہے۔ تیل کی قیمتیں جتنی زیادہ ہوں گی اور جتنی زیادہ دیر تک بلند رہیں گی، معاشی نمو پر اس کا اتنا ہی گہرا اثر پڑے گا۔ تیل کی قیمتیں حال ہی میں اس خدشے کی وجہ سے بڑھی ہیں کہ یوکرین پر روس کے حملے سے تیل کی رسد پر پہلے سے موجود دبائو مزید بڑھے گا۔ روس توانائی پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ امریکی خام تیل ایک بیرل 130 ڈالر کی حد کو چھونے کے بعد تین اعشاریہ دو فیصد اضافے کے ساتھ 119 اعشاریہ 40 ڈالر پر آکر رکا ہے۔ بین الااقوامی معیار کے برینٹ کروڈ تیل کی قیمت 139 ڈالر کی حد کو چھونے کے بعد چار اعشاریہ تین فیصد اضافے کے ساتھ 123 اعشاریہ 30 فی بیرل پر آ کر رکی ہے۔ یوکرین تنازعے سے یورپ، افریقہ اور ایشیا سمیت دنیا کے چند حصوں کو خوراک کی فراہمی میں بھی خطرات درپیش ہیں جو بحیرہ اسود کے اعلاقے کے ان وسیع زرخیز کھیتوں پر انحصار کرتے ہیں جنھیں دنیا " بریڈ باسکٹ" کہتی ہے۔ جنگ دنیا بھر کے مرکزی بینکوں پر اضافی دبائو ڈال رہی ہے۔ امریکہ کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو اس ماہ کے آخر میں 2028ء کے بعد پہلی بار شرح سود میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ زیادہ شرح معیشت کو سست کرتی ہیں جس سے توقع ہے کہ بلند افراط زر پر لگام لگانے میں مدد ملے گی لیکن اگر فیڈرل ریزرو سود کی شرح بہت زیادہ بڑھاتا ہے تو اس سے معیشت کے کساد بازاری میں جانے کا خطرہ بھی ہے۔