ویب ڈیسک: بھارت میں ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں احتجاج جاری ہے۔ دہلی چلو مارچ پچیسویں دن میں داخل ہوگیا۔
تفصیلا ت کے مطابق ہریانہ پولیس کے بعد دہلی پولیس نے بھی کسانوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا ہے۔ کسان مطاہرین نے 14 مارچ کو دہلی میں مہا پنچایت منعقد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ڑیل روکو تحریک کی کال بھی دے دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ دو دن قبل ہریانہ کی ہائی کورٹ نے کسانوں کا احتجاج کنٹرول کرنے میں بد انتظامی کا مظاہرہ کرنے پر ہریانہ اور پنجاب کی حکومتوں کو شدید سرزنش کی تھی۔
ہریانہ پولیس نے اب بھی کسانوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔ گرفتاریاں بھی جاری ہیں اور تشدد کا گراف بھی نیچے نہیں لایا جارہا۔
دوسری طرف دہلی میں کسانوں نے اجازت نہ ملنے کے باوجود جنتر منتر کی طرف مارچ شروع کردیا ہے۔ کسانوں کو دارالحکومت نئی دہلی کی طرف جانے سے روکنے کے لیے دہلی پولیس نے گرفتاریاں شروع کردی ہیں۔
سمیُکت کسان موچہ نے کسانوں کے مسائل پر بات چیت کے لیے دہلی میں 14 مارچ کو مہا پنچایت کی کال دی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے بتایا کہ درجنوں کسانوں کو دہلی کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔
دہلی پولیس نے گرفتاریوں سے متعلق خبروں کو جھوٹ قرار دے کر تحقیقات کرانے سے انکار کردیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ دہلی کی سرحدوں پر خاصی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں اور پولیس بھی تعینات ہے۔
ایک سینیر تجزیہ کار نے کہا ہے کہ مودی سرکار کو معاملات خوش اسلوبی اور معاملہ فہمی سے نپٹنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو حکومت کے مرکز میں اتنے قریب آنے پر کسانوں کے خلاف کارروائیاں نہیں کرنی چاہئیں اور غیر معمولی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
کسان قائدین نے 10 مارچ کو ریل روکو تحریک کی کال دی ہے۔ اس حوالے سے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔
پنجاب اور ہریانہ میں حکومتوں نے پولیس کی مزید نفری تعینات کردی ہے تاکہ ریل آپریشن متاثر نہ ہو۔
یہ نام نہاد جمہوریت کے بھارتی دعووں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بھارتی مودی سرکار اپنے کسان طبقے کو کچلنے میں مصروف ہے اور ان کے آزادی حق رائے کو ختم کر کے اپنی انتہا پسند پالیسیوں کو پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ کسانوں کے حقوق کی پامالی میں نام نہادانصاف کا راگ الاپنے والی بھارتی عدلیہ بھی مودی سرکار کی آلائے کار بن کر بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔