جنگ بندی نہ ماننے پرامریکا کا حماس کو قطر سے نکالنے کا مطالبہ

12:35 PM, 9 Nov, 2024

 ویب ڈیسک : حماس کی جانب سے جنگ بندی کی حالیہ تجاویز مسترد کیے جانے کے بعد امریکا نے قطر سے کہا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ کی دوحہ میں موجودگی مزید قابل قبول نہیں ہے۔

امریکی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا ’یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کئی مجوزہ معاہدوں کو مسترد کرنے کے بعد امریکا کے کسی بھی پارٹنر ملک کو اس کے رہنماؤں کا خیرمقدم نہیں کرنا چاہیے۔ ہفتوں پہلے یرغمالیوں کی رہائی کا ایک اور مجوزہ معاہدہ مسترد ہونے کے بعد ہم نے قطر کو یہ واضح کر دیا ہے۔‘

 عہدیدار نے مزید بتایا کہ تقریباً دس دن پہلے قطر نے حماس کے رہنماؤں سے مطالبہ کیا تھا اور واشنگٹن اس حوالے سے قطر کے ساتھ رابطے میں ہے کہ حماس کے سیاسی دفتر کو بند کیا جائے۔

امریکا نے قطر سے کہا ہے کہ گروپ کی جانب سے حالیہ تجاویز مسترد  ہونے کے بعد سیاسی دفتر کو بند کرنے کا وقت اب آ گیا ہے۔

دوسری جانب حماس کے تین عہدیداروں نے قطر کی جانب سے کسی بھی قسم کے مطالبے کی تردید کی ہے۔

قطر نے امریکا اور مصر کے ساتھ مل کر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

حماس کی جانب سے کم مدت کے لیے جنگ بندی کی تجویز مسترد کیے جانے کے بعد اکتوبر کے وسط میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات بغیر کسی کامیابی کے ختم ہو گئے تھے۔

گزشتہ سال ایک اعلٰی امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ قطر نے واشنگٹن کو بتایا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد حماس کی ملک میں موجودگی کے حوالے سے دوبارہ غور کریں گے۔

اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قطر اور خطے میں دیگر ممالک کے رہنماؤں سے کہا تھا کہ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد حماس کے ساتھ ’معمول کے مطابق‘ معاملات نہیں چل سکتے۔

امریکا کا ایک اہم اتحادی ملک قطر 2012 سے حماس کے سیاسی رہنماؤں کی اپنے ملک میں میزبانی کر رہا ہے جو دراصل امریکا کے ساتھ معاہدے کا حصہ ہے۔

قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے گزشتہ سال متعدد بار یہ کہا کہ دوحہ میں حماس کا دفتر گروپ کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے لیے قائم کیا گیا ہے اور جب تک یہ فائدہ مند ثابت ہو گا تب تک قطر میں حماس کے دفتر کو کام کرنے کی اجازت ہو گی۔

مزیدخبریں