ویب ڈیسک: سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت میں تقریباً تین ڈگری سینٹی گریڈ تک کے ممکنہ اضافے کی صورت میں برطانیہ میں گرمی کے باعث ہونے والی اموات چھ گنا تک بڑھ سکتی ہیں۔
لینسیٹ گلوبل نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے ایک طبی تحقیق کے نتائج کے مطابق اس وقت سردی کی وجہ سے ہونے والی اموات گرمی کے باعث ہونے والی اموات سے زیادہ ہیں۔ اس ریسرچ کے بعد خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے بعد ایسی اموات کی سالانہ تعداد 2100ء تک تقریباﹰ 70 ہزار تک پہنچ جائے گی۔
ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق تیس یورپی ممالک سے لیے گئے اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ موجودہ ماحولیاتی پالیسیوں کے باعث رواں صدی کے آخر تک یورپی براعظم میں گرمی سے ہونے والی انسانی اموات میں تین گنا تک اضافے کا خدشہ ہے اور ان کی سالانہ تعداد موجودہ 43729 سے بڑھ کر 128809 تک پہنچ جائے گی۔
دوسری جانب سردی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد 2100ء تک معمولی کمی کے ساتھ 363,809 سے کم ہو کر 333,703 ہو جائے گی۔
یورپی کمیشن کے جوائنٹ ریسرچ سینٹر کے تحقیق کار خوآن کارلوس سِسکار کا کہنا ہے کہ ، ''ہمارے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اس صدی کے دوران سردی اور گرمی سے ہونے والی اموات کا تناسب ڈرامائی طور پر تبدیل ہوجائے گا۔ پورے یورپ میں گرمی سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہو گا جبکہ کچھ علاقوں میں یہ اضافہ شدید ہو گا۔‘‘
اس تحقیق میں برطانیہ میں زیادہ گرمی سے ہونے والی اموات کی تعداد میں چھ گنا تک اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یہ تعداد سالانہ 1258سے بڑھ کر 7931 تک پہنچ سکتی ہے۔
اسی طرح صرف برطانیہ میں ہی سردی سے ہونے والی اموات کی تعداد بھی موجودہ 64195 میں معمولی اضافے کے ساتھ رواں صدی کے آخر تک 64952 تک پہنچ جائے گی۔
اس ریسرچ میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ جمہوریہ آئرلینڈ میں ہر سال سخت سردی کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا اور ان کی تعداد آج سے قریب تین چوتھائی صدی بعد موجودہ 3974 سے 7696 تک پہنچ سکتی ہے۔
اسی طرح گرمی کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد بھی موجودہ 30 سے بڑھ کر 563 ہو جائے گی۔
یورپ میں سخت سردی سے ہونے والی اموات مشرقی یورپ اور بالٹک کی ریاستوں میں سب سے زیادہ ہیں جبکہ وسطی اور جنوبی یورپ کے کچھ حصوں میں سب سے کم۔ تاہم سخت گرمی سے ہونے والی اموات کی موجودہ تعداد برطانیہ اور اسکینڈے نیویا کے ممالک میں سب سے کم ہے جبکہ کروشیا اور یورپ کے جنوبی حصوں میں یہ سب سے زیادہ رہتی ہے۔