ویب ڈیسک: پاکستان بار کونسل کے ممبران نے حکومت کی آئی ایس آئی کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کی مذمت کر دی۔
تفصیلات کے مطابق بار کونسل کے ممبران نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف سوشل میڈیا مہم کی بھی مذمت کی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان بار کونسل کے ممبران ممبر عابد زبیری، شفقت چوہان، اشتیاق خان، شہاب سرکی، منیر احمد کاکڑ اور طاہر عباسی نے مراسلہ لکھ دیا۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو اس قدر اختیار دینا خطرناک اور غیر منصفانہ ہے۔ حکومت کی جانب سے ایسا نوٹیفکیشن بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا نوٹیفکیشن آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں فون ٹیپنگ کے کیسز کے زیرسماعت ہونے کے دوران ایسا نوٹیفکیشن پریشان کن ہے۔
پاکستان بار کونسل کی جانب سے اسلام اباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف دائر ریفرنس اور سوشل میڈیا مہم کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ مراسلے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔
قبل ازیں وفاقی حکومت نے انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کے نامزد افسر کو ’قومی سلامتی کے مفاد‘ کے پیش نظر شہریوں کی فون کالز یا پیغامات کو انٹرسیپٹ اور ٹریس کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
حساس ادارے کو ٹیلی فون کالز یا میسج میں مداخلت اور سراغ لگانے کا اختیار مل گیا، پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) ایکٹ 196 کے سیکشن 54 کے تحت اجازت دی گئی۔
اس حوالے سے وفاقی کابینہ نے حساس ادارے کے نامزد افسر کو کال ٹریس کرنےکا اختیار دینے کی منظوری دی، کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے منظوری دی، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس ضمن میں نوٹی فیکشن بھی جاری کردیا ہے۔
نوٹی فیکشن کے مطابق ملکی قومی سلامتی کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ آئی ایس آئی جس افسر کو شہریوں کی فون کالز اور پیغامات سننے اور ریکارڈ کرنے کے لیے نامزد کرے گی وہ گریڈ 18 سے کم نہیں ہوگا۔