سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کیخلاف ایکشن لینگے

07:39 AM, 10 Nov, 2021

Rana Shahzad
اسلام آباد: ( پبلک نیوز) وزیراعظم عمران خان نے سانحہ آرمی پبلک سکول کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہو کر یقین دہانی کرائی ہے کہ آپ حکم کریں، ہم سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کیخلاف ایکشن لیں گے۔ تفصیل کے مطابق وزیراعظم عمران خان آج سانحہ آرمی پبلک سکول ( اے پی ایس) کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کرنے پر عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہوئے اور اب تک کی ڈویلپمنٹ بارے آگاہ کیا۔ وزیراعظم روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ جی بتائیں خان صاحب! سانحہ اے پی ایس میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے بتایا کہ 2014ء میں جب یہ سانحہ ہوا تو خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت تھی۔ سانحہ کی رات اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا۔ یہ واقعہ انتہائی دردناک تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم صاحب یہ تمام باتیں پہلے سے ہمارے علم میں ہیں، آپ یہ بتائیں کہ ذمہ داروں کیخلاف اب تک کیا کارروائی کی گئی؟ اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ جو بھی ممکنہ اقدامات ہو سکتے تھے، ہم نے اس وقت کئے تھے۔ جب یہ واقعہ ہوا تو میں فوراً پشاور پہنچا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین اس وقت کے اعلیٰ حکام اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی چاہتے ہیں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کے دکھوں کا مداوا کم کرتے ہوئے انھیں تسلی دیں۔ جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم صاحب ماضی کی باتیں چھوڑ دیں، بس ہمیں یہ بتائیں کہ اس کیس میں‌اب تک کس کس کو پکڑا گیا ہے؟ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اخلاقی ذمہ داری پر کیسے کسی کیخلاف مقدمہ درج کر دیں؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟ عمران خان نے کہا کہ میں تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، اب آپ بااختیار وزیر اعظم ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آپ نے کیا کیا؟ جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ کیا ہم پھر مذاکرات کرکے سرنڈر کیا جا رہا ہے؟ وزیراعظم نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کا موقع دیں میں ایک ایک کرکے وضاحت کرتا ہوں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا؟ آئین پاکستان میں عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ مظلوم کا ساتھ تو یہی ہے کہ ظالم کے خلاف کارروائی ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شہدا کے والدین کہتے ہیں ہمیں حکومت سے امداد نہیں چاہیے۔ اس وقت پورا سیکورٹی سسٹم کہاں تھا؟ ہمارے واضع حکم کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔ سات سال سے کسی بڑے کیخلاف کاروائی نہیں ہوئی۔ شہدا کے والدین کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔ آرمی کے اس وقت کے جو کرتے دھرتے تھے، مراعات کے ساتھ ریٹائرڈ ہو گئے۔ سپاہی سے پہلے ذمہ دارن ٹاپ افسران تھے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک سکول کیس میں وزیراعظم عمران خان کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کیلئے طلب کیا تھا۔ اس اہم کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا تھا کہ وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے ان کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں وزیراعظم عمران خان کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کرینگے، ایسے نہیں چلے گا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے۔ قومی خزانے سے اربوں روپے اس پر خرچ ہوتے ہیں۔ دعویٰ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں۔ دوران سماعت عدالت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے۔ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور انھیں پکڑنا ریاست کا کام نہیں ہے؟ چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔ بچوں کو سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں حکم دیا کہ حکومت سانحہ آرمی پبلک سکول میں ملوث افراد کیخلاف مثبت اقدام اٹھائے۔ وزیر اعظم کی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد کیس کی سماعت 4 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی گئی۔
مزیدخبریں