مصنوعی ذہانت سے اب دل کے دورے کا پہلے سے سدباب ممکن

11:56 AM, 11 Aug, 2024

ویب ڈیسک: مصنوعی ذہانت کے ذریعے اب دل کے دورے کا پہلے سے ہی سدباب ممکن ہوگیا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اگلے 10 سالوں میں دل کے دورے کے خطرے سے دوچار لوگوں کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کو سائنس دانوں نے ایک ’گیم چینجر‘ قرار دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت ماڈل اب دل میں سوزش کا پتا لگالے گی جو سی ٹی اسکین پر ظاہر نہیں ہوتا۔

نیشنل ہیلتھ سروسز انگلینڈ کے تعاون سے ایک پائلٹ پروجیکٹ آکسفورڈ، ملٹن کینز، لیسٹر، لیورپول اور وولور ہیمپٹن کے 5 اسپتالوں میں چل رہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں فیصلہ چند ہی مہینوں میں متوقع ہے۔

اس تکنیک کی ڈویلپر آکسفورڈ یونیورسٹی کی اسپن آؤٹ کمپنی کیریسٹو ڈائیگناسٹک کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے ہی فالج اور ذیابیطس کو روکنے کے لیے ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پروفیسر کیتھ چنن نے کہا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی تبدیلی اور کھیل کو بدلنے والی ہے کیونکہ پہلی بار ہم دل کے اندر تنگی اور رکاوٹوں کی نشوونما سمیت ان مختلف حیاتیاتی عملوں کا پتا لگا سکتے ہیں جو انسانی آنکھ سے پوشیدہ ہیں۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سوزش میں اضافہ دل کی بیماری اور دل کے مہلک حملوں کا سبب بنتی ہے۔

برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق برطانیہ میں تقریباً 7.6 ملین لوگ دل کی بیماری میں مبتلا ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس پر انگلینڈ میں این ایچ ایس کو اس پر سالانہ 7 اعشاریہ 4 ارب پاؤنڈز خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

بی ایچ ایف نے کہا کہ برطانیہ میں ہر سال تقریباً ساڑھے 3 لاکھ مریضوں کو کارڈیک سی ٹی اسکین کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

پروفیسر چارالمبوس اینٹونیاڈس کے مطابق اب تک دستیاب ٹولز قدیم تھے کیونکہ رسک کیلکولیٹر صرف عام خطرے کے عوامل کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جیسے کہ مریض ذیابیطس، سگریٹ نوشی یا موٹاپا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب اس قسم کی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم بیماری شروع ہونے سے پہلے ہی مریض کی شریانوں میں کسی نقصان دہ سرگرمی کے بارے میں بخوبی جان سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ہم بیماری کے عمل کو ختم کرنے کے لیے جلد ہی آگے بڑھ سکتے ہیں اور اس مریض کا علاج کر سکتے ہیں تاکہ بیماری کو بڑھنے سے روکا جا سکے اور مریض کو دل کے دورے سے بچایا جاسکے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسیلنس فی الحال ٹیکنالوجی کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ آیا اسے پورے  این ایچ ایس میں متعارف کرایا جانا چاہیے یا نہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال امریکا میں بھی زیر غور ہے اور اسے یورپ اور آسٹریلیا میں استعمال کے لیے منظور کر لیا گیا ہے۔

مزیدخبریں