مودی سرکار کے راج میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریرمیں اضافے کا انکشاف

10:08 AM, 11 Feb, 2025

ویب ڈیسک: امریکا میں مقیم ایک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ بھارت میں ملک کی مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز تقاریر میں 2024 میں "حیران کن" اضافہ دیکھنے میں آیا۔

تفصیلات کے مطابق انڈیا ہیٹ لیب (IHL) نے پیر کو ایک رپورٹ میں کہا کہ خطرناک اضافہ "حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) اور وسیع تر ہندو قوم پرست تحریک کے نظریاتی عزائم کے ساتھ گہرا جڑا ہوا تھا۔"

گذشتہ سال انڈیا میں ہونے والے سخت انتخابی مقابلے کے دوران ناقدین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ انہوں نے انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ان بیانات کا مقصد ہندو اکثریت کو متحرک کرنا تھا۔

اپنی ریلیوں میں، مودی نے مسلمانوں کو ’گھس بیٹھیا‘ کہا اور یہ دعویٰ کیا کہ اگر اپوزیشن جماعت کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ملک کی دولت مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔

مودی نے جون میں مسلسل تیسری بار وزیراعظم بننے کی کامیابی حاصل کی لیکن انتخابی نتائج میں چونکا دینے والی ناکامی کے باعث، بی جے پی کو 10 سال میں پہلی بار اکثریت کے بغیر حکومت بنانی پڑی اور اس نے مخلوط حکومت بنائی۔

نفرت انگیز تقاریر میں بے تحاشہ اضافہ

بی جے پی کی ہندو قوم پرستانہ بیان بازی نے انڈیا کے 22 کروڑ سے زائد مسلمانوں میں ان کے مستقبل کے حوالے سے شدید بےچینی پیدا کر دی ہے۔

آئی ایچ ایل کی رپورٹ کے مطابق ’2023 میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز بیانات کے 668 واقعات رپورٹ ہوئے جو 2024 میں بڑھ کر 1165 تک پہنچ گئے یعنی ان میں بہت زیادہ 74.4 فیصد اضافہ ہوا۔‘

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ’چوں کہ 2024 عام انتخابات کا سال تھا اس لیے اس نے نفرت انگیز بیانات کے رجحانات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔‘

تحقیق کے مطابق 98.5 فیصد نفرت انگیز تقاریر مسلمانوں کے خلاف کی گئیں اور ان میں سے دو تہائی سے زائد بیانات ان ریاستوں میں دیے گئے جو بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کے کنٹرول میں ہیں۔

'موجود خطرہ'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے 450 سے زیادہ واقعات بی جے پی کے رہنماؤں نے پیش کیے، جن میں سے 63 کے لیے مودی خود ذمہ دار ہیں۔

بی جے پی نے اس کی اشاعت سے قبل رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، لیکن ماضی میں اس طرح کے الزامات کو غلط قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا، ’’مسلمانوں کو، خاص طور پر، ہندوؤں اور ہندوستانی قوم کے لیے ایک وجودی خطرے کے طور پر پیش کیا گیا‘‘۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ ’سب سے زیادہ خطرناک اضافہ ان تقاریر میں ہوا جن میں عبادت گاہوں کی تباہی کی حمایت کی گئی۔‘

ہندو بالادستی کے حامیوں  نے مسلمانوں سے مذہبی مقامات واپس لینے کے مطالبے کو مزید شدت دی۔

یہ رجحان اس وقت مزید بڑھ گیا جب مودی نے گذشتہ سال کے انتخابات سے قبل عظیم الشان رام مندر کا افتتاح کیا۔

یہ مندر اس جگہ پر تعمیر کیا گیا جہاں صدیوں پرانی بابری مسجد موجود تھی جسے بی جے پی کے حمایت یافتہ ہجوم نے منہدم کر دیا تھا۔

انڈیا ہیٹ لیب کے تجزیے کے مطابق نفرت انگیز مواد پھیلانے کے لیے فیس بک، یوٹیوب اور ایکس سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز رہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انتخابات کے دوران، بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کی 266 ’اقلیت مخالف نفرت انگیز تقاریر‘ کو یوٹیوب، فیس بک، اورایکس  پر بیک وقت پوسٹ کیا گیا۔ یہ تقاریر بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کے آفیشل اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کی گئیں۔

انڈیا ہیٹ لیب واشنگٹن میں قائم ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک، سینٹر فار دا سٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ (سی ایس او ایچ)  کا حصہ ہے۔

مزیدخبریں