ویب ڈیسک: لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان توشہ خانہ نا اہلی کیس اور پی ٹی آئی کو ڈی لسٹ کرنے کے کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل کو تیاری کے لیے 2 ہفتوں کی مہلت دے دی۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں توشہ خانہ کیس میں نااہلی اور پی ٹی آئی کو ڈی لسٹ کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت 2رکنی بینچ نے کی۔
علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 173 کے تحت 120 روز میں کاروائی کی جا سکتی ہے،دو چار سال بعد کارروائی کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ ارکان اسمبلی کے اوپر سے لٹکتی تلوار کو ہٹایا گیا ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ ان تمام فیصلوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ قائم نہیں رہ سکتا۔توشہ خانہ کی یہ کارروائی تمام برائیوں کی جڑ ہے، اس کارروائی کی بنا پر بعد میں توشہ خانہ ون، توشہ خانہ ٹو کارروائی شروع ہوئی، الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ طاقت کا بد ترین استعمال ہے، الیکشن کمیشن نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا، الیکشن کمیشن صرف بانی پی ٹی آئی کو نا اہل کرنا چاہتا ہے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف 120 دونوں کے اندر کارروائی کر سکتا ہے،یہ نہیں ہو سکتا کہ دو، چار سال بعد کسی کے خلاف کوئی کارروائی شروع کر دیں،ان دلائل کی بنا پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ ٹھیک نہیں ہے،اگر کسی سے اپنے اثاثے ڈکلیئر کرنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے،یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ملزم نے اپنے اثاثے جان بوجھ کر چھپائے ہیں۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ یہ ثابت ہونا چاہے کہ کسی نے جان بوجھ کر فراڈ کے تحت اپنے اثاثے چھپائے ہیں۔
جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا سپریم کورٹ کے کسی فیصلے میں الیکشن کمیشن رولز کا ذکر کیا گیا ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ اسی فیصلے میں رولز کا ذکر کی گیا ہے،ہم یہاں پر میرٹ کو نہیں سن رہے وہ تو آپ متعلقہ فورم پر بتائی گا۔
شہزاد شوکت وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ علی ظفر جس فیصلے کا ذکر کر رہے ہیں وہ رپوٹڈ نہیں ہے،علی ظفر کے دلائل کے بعد میں اس پر اپنے دلائل دوں گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل شہزاد شوکت نے موقف اختیار کیا کہ بیر سٹر علی ظفر نے لاہور ہائی کورٹ کے جس عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا ہے میں اس سے آگاہ نہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم کیس کی سماعت 2 ہفتوں تک ملتوی کردیتے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا یہ بہتر ہوگا۔ اس وقت تک میں بطور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی نہیں رہوں گا۔سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کی ذمہ داری مجھ پر سے ختم ہو چکی ہوگی۔
بعد ازاں عدالت نے مزید دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔