ایم کیو ایم کے دھڑے ایک، مصطفیٰ کمال، فاروق ستارمتحدہ میں شامل

02:06 PM, 12 Jan, 2023

احمد علی
کراچی : تقسیم در تقسیم کے بعد ایم کیو ایم کے بکھرے دھڑے پھر سے ایک ہو گئے۔ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد پہنچے، عامر خان اور دیگر رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کےکنوینر خالد مقبول صدیقی نے مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہا کہ مشترکا کاوشیں رنگ لائی ہیں، مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ قوم میں مایوسی پیدا کرنے والوں کو آج مایوسی ہو رہی ہے، پاکستان بنایا تھا، اب پاکستان بچائیں گے۔ چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفیٰ کمال نے پی ایس پی کو ایم کیو ایم پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم خالد مقبول صدیقی بھائی کی رہنمائی میں کام کریں گے۔ آج تاریخی دن ہے، آج نہ سمجھ میں آنے والے فیصلے ہونے جا رہے ہیں، الطاف حسین سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں تھی، جو کچھ بٹتا تھا، سب کو ملتا تھا، روزانہ پاکستان کی ریاست اور پاکستان کی فوج کو گالی بکی جارہی تھی، آج مصطفیٰ کمال اور اس کے ساتھی ایک اور ہجرت کر رہے ہیں، یہ ہجرت پی ایس پی سے ایم کیو ایم کی طرف ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو را کے تسلط سے اس لیے آزاد نہیں کرایا کہ آصف زرداری کا اس پر تسلط ہو، آصف زرداری کا ارادہ ہےکہ بلاول کو وزیراعظم پاکستان بنائیں، بلاول کو وزیراعظم بنانا ہے تو کراچی کو ساتھ لے کر چلنا پڑےگا۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ پاکستان چلانے والوں سے گزارش ہے کہ اب کراچی کے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنےکا وقت ہے، کراچی پاکستان کو پالتا ہے، آج بھی پاکستان کو چلاسکتا ہے، پال سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے کہتا ہوں، کراچی کے نوجوانوں کو ایک بار مکمل معافی دی جائے۔ اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک متحرک اور منظم ایم کیو ایم شروع کرنے جا رہے ہیں۔ ایک ری برانڈڈ، ایک ریفارم ایم کیو ایم سامنے لا رہے ہیں۔ جنیوا سے 10 ارب ڈالرز ملنے پر خوش ہو رہے ہیں، کراچی کو موقع دیں، 10 ارب ڈالر تنہا کراچی کما کر دے سکتا ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کی تقسیم زہر قاتل تھی، لکیر 23 اگست کو کھینچی گئی، تو ہم پر 22 اگست کا مقدمہ اب تک کیوں چل رہا ہے؟ ہمیں جو فیصلہ کرنا تھا، وہ فیصلہ ہم 23 اگست کو کر چکے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ شارع فیصل پر دھرنا دے یں تو دیکھتے ہیں پھر 15 جنوری کا الیکشن کیسے ہوتا ہے؟ ۔
مزیدخبریں