ویب ڈیسک: کوپ 29 کانفرنس میں شرکت کیلئے وزیراعظم شہباز شریف 3 روزہ دورہ پر آذربائیجان پہنچ گئے۔ جہاں وہ پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر پیش کریں گے۔ وزیرِ اعظم ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان کے چیلینجز پر روشنی ڈالیں گے۔ اس موقع پر وہ مختلف کانفرنسز اور اہم شخصیات سے سائیڈ لائن ملاقاتیں بھی کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف 3 روزہ دورے کے دوران آج باکو میں مصروف دن گزاریں گے۔ وزیرِاعظم کانفرنس آف پارٹیز کے 29ویں کلائمیٹ ایکشن سربراہی اجلاس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
وزیرِاعظم کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس میں شرکت کریں گے جس میں متعدد عالمی رہنما شرکت کریں گے۔
وزیرِ اعظم ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان کے چیلینجز پر روشنی ڈالیں گے۔ ان ممالک کا زہریلی اور ماحول کو آلودہ کرنے والی گیسوں کے اخراج میں کم ترین حصہ ہے مگر وہ موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے دوچار ہیں۔
کوپ 29سربراہی اجلاس کے موقع پر گروپ فوٹو:
کوپ 29 کلائمیٹ ایکشن سربراہی اجلاس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر شریک عالمی رہنماؤں کا گروپ فوٹو سیشن منعقد ہوا۔ جس میں وزیراعظم شہباز شریف نے بھی شرکت کی۔
2024موسمیاتی تباہی کی ماسٹرکلاس رہا، انتونیو گوتریس
آذربائیجان میں منعقدہ ’کوپ 29‘ کے اجلاس میں یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خطاب کرتے ہوئے 2024 کو موسمیاتی تباہی کی ’ماسٹر کلاس‘ قرار دے دیا۔
پاکستانی وزیر اعظم میاں شہباز شریف، ترک صدر رجب طیب اردوان، برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر، یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زائد النہیان اور تاجک صدر امام علی رحمانوف سمیت دیگر عالمی سربراہان نے شرکت کی۔ امریکا اور چین کی جانب سے اجلاس میں شرکت کے لیے وفود بھیجے گئے۔
عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب میں انتونیو گوتریس نے کہا ’’2024 آب و ہوا کی تباہی کی ایک ماسٹر کلاس ہے۔ اگلے سمندری طوفان سے پہلے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے والے خاندان، کارکنان اور زائرین ناقابل برداشت گرمی کا شکار ہو رہے ہیں۔
انتونیو گوتریس نے واضح کیا کہ سیلاب کمیونٹیز کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیتا ہے۔‘‘موسمیاتی فنانس پر دنیا کو ادائیگی کرنا ہوگی ورنہ انسانیت کو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
"گلیشئیرز 2025: گلیشیئرز کیلئے اقدامات"
وزیرِاعظم تاجک صدر امام علی رحمان کی جانب سے گلیشیئرز کے تحفظ کیلئے منعقدہ اعلی سطح تقریب "گلیشئیرز 2025: گلیشیئرز کیلئے اقدامات" میں بھی شرکت کریں گے۔
ڈنمارک اور چیک ریپبلک کے وزراءاعظم سے ملاقاتیں شیڈول:
وزیرِ اعظم COP-29 میں شرکت کیلئے آئے ڈنمارک اور چیک ریپبلک کے وزراءِ اعظم سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی کریں گے۔
ملاقاتوں میں نہ صرف باہمی تعلقات کے فروغ پر گفتگو ہوگی بلکہ وزیرِاعظم، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
اس سے قبل وزیرِاعظم شہباز شریف کانفرنس آف پارٹیز کے 29ویں اجلاس میں شرکت کیلئے باکو، آذربائیجان پہنچے تھے۔ آذربائیجان کے وزیرِ دفاعی صنعت وگار والح اوعلو مصطفییف نے وزیرِاعظم کا باکو ائیرپورٹ پر پرتپاک استقبال کیا۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی وزیرِاعظم کے ہمراہ ہیں۔
کوپ 29، آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق سالانہ اجلاس شروع:
آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کا سالانہ سربراہی اجلاس، COP29 شروع ہو گیا ہے جو 22 نومبر تک جاری رہے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ان اجلاسوں میں شرکت کرنے والے ممالک کے درمیان مالی وسائل اور تجارت کے حوالے سے سخت مذاکرات ہوں گے۔
یہ اجلاس ان موسمیاتی آفات کے ایک سال بعد منعقد ہورہاہے جن سے ترقی پذیر ممالک کو آب وہوا کی تبدیلی کے حوالے سے فنڈز فراہم کرنے کے مطالبات کرنے کا حوصلہ ملا ہے ۔
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں اکھٹے ہونے والے مندوبین کو امید ہے کہ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں سر فہرست مسئلے کو حل کر لیا جائے گا۔ اس مسئلے کا تعلق ترقی پذیر ملکوں کے لیے سالانہ کلائمیٹ فنانس میں ایک ٹریلین ڈالر تک کا ایک معاہدہ ہے۔
تاہم، سربراہی اجلاس کی مذاکراتی ترجیحات میں حکومتوں کے وسائل کے لیے مسابقت اور معاشی خدشات پر توجہ مرکوز کرنے، یوکرین اور غزہ میں جنگیں اور گزشتہ ہفتے امریکا میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے صدر کے طور پر، آ ب و ہوا کی تبدیلی کے منکر ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا شامل ہیں۔
آذربائیجان کو اہم ذمہ داری ملنے کا امکان:
اجلاس کے میزبان ملک ، آذربائیجان کو یہ کام سونپا جائے گا کہ وہ متاثرہ ممالک کو 100 ارب ڈالر کے موجودہ معاہدے کی جگہ، جس کی مدت اس سال ختم ہو رہی ہے، ایک نئے عالمی مالیاتی معاہدےپر اتفاق رائے حاصل کرنے کے اقدامات کرے۔
سربراہی اجلاس کے آغاز سے بھی پہلے، ممالک کو اتفاق رائے سے ایک ایجنڈے پر متفق ہونا پڑے گا، جس میں تجارتی تنازعات کو آخری لمحات میں طے کرنے کے لیے چین کی طرف سے ایک تجویز بھی شامل ہے۔
برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ سمیت تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں کے ایک گروپ BASIC کی جانب سے پیش کی گئی چینی تجویز میں سربراہی اجلاس سے ’پابندی کے حامل تجارتی اقدامات‘ سے نمٹنے کے لیے کہا گیا ہے۔ جس کی ایک مثال یورپی یونین کا 2026 میں نافذالعمل ہونے والا کاربن بارڈر ٹیرف ہے۔ اس محصول کا اطلاق ان درآمدی اشیا پرہو سکتاہے جن کی تیاری کے دوران کاربن گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔
اب ان خدشات میں ٹرمپ کی انتخابی مہم میں کیے گئے اس وعدے کے بعد اضافہ ہو گیا ہے کہ تمام غیرملکی اور چینی سامان پر 60 فیصد محصول لگایا جائے گا۔
ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں چائنا کلائمیٹ ہب کے ڈائریکٹر لی شو نے کہا ہے کہ چین کی درخواست سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے بعد ،جس سے امریکا کی جانب سے آب و ہوا کے عالمی مسائل پر تعاون سے ممکنہ علیحدگی کا سگنل ملتاہے، اپنے اقدامات میں لچک کا مظاہرہ کررہا ہے۔
امریکا اپنے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے پرعزم ہے، ٹرمپ
واشنگٹن کے اعلیٰ آب و ہوا کے ایلچی نے کوپ 29 کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے امریکی کوششوں کو ختم نہیں کرے گا۔
اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ موسمیاتی مالیات کو صرف صدقہ یا عطیہ سمجھنا غلط ہے بلکہ یہ عالمی ذمہ داری اور پائیدار ترقی کے لیے ضروری سرمایہ کاری ہے۔
امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے امریکا اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس لڑائی کا دائرہ انتخابی سیاست سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اپنے پچھلے مدت صدارت میں ٹرمپ نے آب و ہوا کی تبدیلی کو ایک دھوکا قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ امریکا پیرس معاہدے سے نکل جائے گا، جو کرہ ارض سے حرارت کے اخراج کو کم کرنے کا عالمی معاہدہ ہے۔
یورپی یونین، موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر چین اور خلیجی تیل کے ممالک پر دباؤ ڈالتی رہی ہے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے کے حل کے لیے فنڈز دینے والے ملکوں کے پول میں شامل ہو جائے۔
اب جب کہ رواں سال عالمی ریکارڈ کا گرم ترین سال بن رہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافے کے نتیجے میں اب افریقہ، اسپین، جنوبی امریکا اور میکسیکو تک امیر اور غریب ملکوں کو یکساں طور پر شدید سیلابوں، طوفانوں اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آب وہوا اور توانائی کے مسائل کے حل سے متعلق ایک غیر منافع بخش ادارے میں بین الاقوامی اسٹریٹیجی سے متعلق وائس پریذیڈنٹ، کاویہ گیلان پور کاکہناہے، ’انتخابی نتائج فطرت کے قوانین کو تبدیل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک دنیا اجتماعی طور پر اپنی کوششوں میں تیزی نہیں لاتی، آب و ہوا کی تبدیلیوں کے اثرات تیزی سے شدید اور زیادہ تعداد میں ہوتے جائیں گے اور امریکا سمیت تمام ممالک میں لوگوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو مصائب اور مشکلات کے ان چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نومبر 11 سے 22 تک ہونے والی اس کانفرنس میں دنیا بھر سے 51,000 سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہے۔ جن میں عالمی رہنما، ماہرین، کاروباری شخصیات اور ماحولیاتی کارکن شامل ہوں گے۔ اس عالمی اجلاس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے نئے اقدامات اور عالمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔