ویب ڈیسک :امریکا کے صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اپنی جماعتوں کی جانب سے صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے نامزدگی حاصل کر لی ہے جس کے بعد دونوں رہنما پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر مدِ مقابل ہوں گے۔
صدر بائیڈن کو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کے حصول کے لیے مطلوبہ ڈیلیگیٹس 1968 کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مزید 102 ڈیلیگیٹس کی ضرورت تھی۔
اسی طرح ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کے لیے 1215 ڈیلیگیٹس کا ہدف حاصل کرنے کے لیے 137 ڈیلیگیٹس کی ضرورت تھی۔
دونوں رہنماؤں نے صدارتی نامزدگی کے لیے مطلوبہ ڈیلیگیٹس کی تعداد حاصل کر لی ہے جس کے بعد پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں اب یہ دونوں رہنما مدِ مقابل ہوں گے۔ البتہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے دونوں رہنماؤں کی نامزدگیوں کا باضابطہ اعلان رواں برس ہونے والے کنونشنز میں کیا جائے گا۔
ری پبلکن پارٹی کا کنونشن جولائی میں جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن اگست میں ہونا ہے۔
صدارتی نامزدگی کی مہم کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار صدر بائیڈن کو معمولی سی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
البتہ ٹرمپ نے ری پبلکن صدارتی نامزدگی کے لیے پرائمریز میں اقوامِ متحدہ میں سابق امریکی سفیر نکی ہیلی، ریاست فلوریڈا کے گورنر ڈی سینٹس اور سابق نائب صدر مائیک پینس کو شکست دی تھی۔
دونوں جماعتوں کی پرائمریز کے دوران ہی امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ صدارتی انتخابات میں بائیڈن اور ٹرمپ ہی مدِ مقابل ہوں گے۔
باضابطہ طور پر صدارتی نامزدگی حاصل کرنے سے قبل ہی صدر بائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
حال ہی میں صدر بائیڈن نے اسٹیٹ آف دی یونین یعنی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران ٹرمپ کا نام لیے بغیر 13 مرتبہ ان کا ذکر کیا تھا۔ صدر بائیڈن نے ٹرمپ کا نام لیے بغیر اپنے پیشرو کا لفظ استعمال کیا۔
دوسری جانب ٹرمپ صدر بائیڈن کی عمر کو لے کر مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ انہوں نے بائیڈن کے ایک حالیہ انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے لگتا ہے کہ وہ امیدوار بننے جا رہے ہیں۔ زندگی سے ہٹ کر میں ان کا واحد حریف ہوں۔"
بیشتر رائے عامہ کے ابتدائی جائزوں کے مطابق ٹرمپ کو بائیڈن پر معمولی سی سبقت حاصل ہے اور پانچ نومبر کو انتخابات کے روز کئی اہم ریاستیں کسی بھی امیدوار کی برتری کا تعین کریں گی۔
دوسری جانب ٹرمپ کو غیر معمولی چار مقدمات کا سامنا ہے جن میں ان پر مجموعی طور پر 91 الزامات ہیں۔ ان مقدمات میں سے ایک مقدمے کا ٹرائل 25 مارچ سے شروع ہونا ہے۔
ٹرمپ کے خلاف دیگر تین مقدمات کی سماعت صدارتی انتخابات سے قبل ہوگی یا نہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ بعض ووٹرز کا سرویز میں کہنا تھا کہ اگر ٹرمپ کسی بھی الزام میں مجرم ٹھہرائے گئے تو وہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے صدر کا انتخاب براہِ راست امریکی ووٹر نہیں کرتے بلکہ صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یعنی امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں صدارتی انتخابات کے روز امریکی ووٹرز الیکٹورل کالج کے ارکان کو منتخب کرتے ہیں جس کے بعد یہی ارکان صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں ہی تمام ریاستوں میں الیکٹورل کالج کے ارکان منتخب کرتی ہیں۔