ویب ڈیسک : ورجینیا کی ایک جیوری نےریاست کے ایک فوجی کانٹریکٹر کو دو عشرے قبل عراق کی رسوائے زمانہ جیل ابو غریب میں تشدد اور بدسلوکی کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے تین سابق قیدیوں کو چار کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
آٹھ افراد پر مشتمل جیوری کا یہ فیصلہ اس سال کے شروع میں ایک اور جیوری کے اس بارے میں اتفاق نہ ہونے کے بعد آیا کہ آیا ورجینیا کے شہر ریسٹن میں قائم سی اے سی آئی(CACI) کو اس کے سویلین تفتیش کاروں کے کام کا ذمہ دار ٹہرایا جانا چاہیے جنہوں نے 2003 سے 2004 تک امریکی فوج کے ساتھ کام کیا تھا۔
جیوری نے مقدمہ دائر کرنے والوں، سہیل الشمری، صالح العجیلی اور اسعد الزوبی میں سے ہر ایک کو 30 لاکھ ڈالر زرتلافی اور گیارہ لاکھ ڈالر فی کس جیل میں ڈالنے کی پاداش میں ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
تینوں نے اپنی شہادت میں بتایا کہ انہیں جیل میں مار پیٹ، جنسی تشدد، جبری عریاں کیے جانے اور دیگر ظالمانہ سلوک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے یہ الزام نہیں لگایا کہ سی اے سی آئی کے تفتیش کاروں نے اپنے طور پر بدسلوکیاں کیں بلکہ یہ کہا کہ سی اے سی آئی ان کارروائیوں میں اس لیے ملوث ہے کیونکہ اس کے تفتیش کاروں نے ملٹری پولیس کے ساتھ مل کر پوچھ گچھ کے لیے سخت رویہ اختیار کیا۔
سی اے سی آئی نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کمپنی اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں سی اے سی آئی کے کسی ملازم پر مجرمانہ، سول یا انتظامی نوعیت کا کبھی بھی الزام نہیں لگایا گیا۔ اور یہ کہ کمپنی کے تفتیش کاروں نے ان پریشان کن کارروائیوں میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی ہمارا کوئی ملازم اس کا ذمہ دار تھا۔
سینٹر فار کانسٹیٹیوشنل رائٹس کے وکیل بحر اعظمی، جنہوں نے مدعیان کی طرف سے مقدمہ دائر کیا تھا، اس فیصلے کو انصاف اور احتساب کا ایک اہم قدم قرار دیا۔
اعظمی نے کہا کہ چار کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی رقم، مدعیان کی طرف سے طلب کی جانے والی تلافی سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ اور یہ رقم تین کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی اس رقم سے زیادہ ہے جو مقدمہ دائر کرنے والوں کے مطابق سی اے سی آئی کو ابو غریب جیل میں اس کے تفتیش کاروں کے لیے ادا کی گئی تھی۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے جس میں کسی امریکی جیوری نے 20 برس کے دوران ابوغریب جیل میں قید کاٹنے والے زندہ افراد کی طرف سے دائر کیے جانے والے کیس کے دو بار کے ٹرائل سنے۔
تاہم الشمری نے اپنی گواہی میں بتایا کہ جیل میں دو ماہ کی قید کے دوان انہیں مارپیٹ کے ساتھ ساتھ جنسی حملوں کا ہدف بھی بنایا گیا۔ انہیں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور گلے میں رسی باندھ کر جیل کے اندر گھیسٹا گیا۔
العجیلی نے بتایا انہیں شدید تناؤ میں رکھا گیا جس سے انہیں سیاہ رنگ کی الٹیاں آنے لگیں۔ انہیں سونے نہیں دیا جاتا تھا اور انہیں خواتین کا زیرجامہ پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ انہیں ڈرانے کے لیے کتے چھوڑے جاتے تھے۔
یہ مقدمہ سب سے پہلے 2008 میں دائر کیا گیا تھا۔ لیکن 15 سال کی قانونی لڑائیوں اور سی اے آئی اے کی جانب سے مقدمے کو خارج کرنے کی متعدد کوششوں کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔
مقدمے میں پیش کیے جانے والے شواہد میں فوج کے دو ریٹائرڈ جنرلوں کی رپورٹس بھی شامل تھیں جنہوں نے بدسلوکی کے واقعات کی دستاویزات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا اور ان میں سی اے سی آئی کے کئی تفتیش کار ملوث پائے گئے۔