چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی 1 فرد کا نہیں ہوسکتا، بلاول بھٹو

09:53 PM, 13 Sep, 2024

(ویب ڈیسک )   چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی   بلاول بھٹو زرداری  کا کہنا ہے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوسکتا۔

سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  ججز سے متعلق ترمیم جیسے معاملے پر اتفاق رائے کسی بھی پارلیمنٹ کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔   چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ  عدلیہ میں تعیناتی کا جوعمل ہے وہ آف دی جوڈیشری، فار دی جوڈیشری، بائی دی جوڈیشری ہے، میں اس میں یک طرفہ کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہوں گا، لیکن میں سمجھتا ہوں اس عمل میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ  جو بھی فیصلے ہوں گےان کو جتنے اتفاق رائے سے کرسکتے ہیں اتنی ہی اس کو طاقت ملےگی۔  شہید بھٹو کو اب انصاف ملا، ان کی تیسری نسل کو انتظار کرنا پڑا کہ ججز انصاف دیں گے، عام پاکستانی کی کیا امید ہوسکتی ہے۔

  بلاول بھٹو نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر پیپلزپارٹی کی حکومت نے 90 فیصد عمل درآمد کیا، عدلیہ کے لیے بھی میثاق جمہوریت میں تجاویز دیں، وہ جماعت کےمنشور کا حصہ ہے، عدلیہ کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں تاکہ کیسز کا بوجھ ختم ہو اور عام آدمی کو فوری انصاف ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ  آئینی ترمیم سے متعلق کمیٹی میں ابھی تو صرف باتیں ہی ہورہی ہیں، آج کمیٹی میں پیپلزپارٹی کا مؤقف تھاکہ ہم چاہتے ہیں میثاق جمہوریت کی روح کو پھر سےقائم کریں، ہم مثبت طریقے سے اس عمل میں حصہ لینا چاہیں گے۔

گورنر راج سے متعلق بات کرتے ہوئے بلول بھٹو نے کہا کہ  پیپلز پارٹی گورنر  راج کے حق میں ویسے تو نہیں ہوتی، اگر مجبور ہوکر گورنر راج لگایا جاتاہے تو ہم نے اٹھارویں ترمیم میں ایسی ترامیم کیں کہ صوبائی اسمبلی کے پاس یہ اختیار ہوکہ اگر گورنر راج لگ بھی جائے تو ہم ہمیشہ کے لیےگورنر راج نہیں لگنےدیں گے۔

انہوں نے کہا کہ  ملک کی سیاسی صورتحال سے ہر پاکستانی مایوس ہے، کوئی شہری اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہماری سیاست ٹوٹ چکی ہے۔

سابق وزیر خارجہ  کا کہنا تھا کہ  پارلیمان کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے، قانون سازی  کرنی چاہیے  اور عوام کو ریلیف فراہم کرنی چاہیے، ہم جب یہاں پہنچتےہیں یا عام آدمی ٹی وی پر دیکھتا ہےتو  اسے نظر آتا ہے کہ نظام نہیں چل رہا۔

بلاول بھٹو نے  کہا کہ  ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو نیب کے لیے ایک مؤقف اور حکومت میں آتے ہیں تو دوسرا مؤقف ہوتا ہے، اگرکرپشن کا مقابلہ کرنا ہے تو نیب ریفارمز کے نظام کو فالو کرنا پڑےگا۔

مزیدخبریں