ویب ڈیسک: پاکستان کے صوبہ سندھ میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار اور بعد میں پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ڈاکٹر شاہنواز کے کیس کا حتمی چالان ایف آئی اے نے پیش کر دیا ہے۔
پولیس افسران کاٹی ایل پی رہنما سے رابطے کا انکشاف:
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میرپور خاص میں ایف آئی اے کی جانب سے پیش کیے گئے چالان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پولیس افسران اور اہلکار تحریکِ لبیک کے رہنما پیر عمر جان سرہندی سے مسلسل رابطے میں تھے، اس کے علاوہ پولیس افسران تفتیشی ٹیم پر اثر انداز ہونے کے لیے سیاسی شخصیات سے بھی مدد کی کوشش کرتے رہے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’کھپرو میرپور خاص روڈ پر سبزل کا علاقہ جس کو جائے وقوعہ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ شاہنواز کے ساتھ یہاں مقابلہ ہوا تھا۔ اس جگہ سی آئی اے اور سندھڑی تھانے کی دو پولیس موبائلیں (گاڑیاں) 19 نومبر کی شب بارہ بج کر پچیس منٹ پر پہنچی ہیں اور انجن بند کیا گیا ایک منٹ کے بعد انجن سٹارٹ ہوا اور اگلے لمحے دونوں موبائلیں سندھڑی کی طرف روانہ ہو گئیں۔
’ان میں سے سندھڑی پولیس کے موبائل بارہ بج کر اڑتالیس منٹ پر پہنچی ہے جبکہ سی آئی اے کی موبائل ایک بج کر اٹھارہ منٹ پر شاہنواز کی لاش سمیت سول ہسپتال میرپور خاص پہنچی۔‘
وقوعہ کے وقت ایس ایس پی کس سے رابطے میں تھا؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تفتشیی ٹیم کے مطابق وقوعہ کے وقت ایس ایس پی اسد چوہدری سی آئی اے سینٹر پر موجود تھا۔ وہ ایک مشکوک فون نمبر کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔ اس کے علاوہ وہ سی آئی اے ٹیم کے اہلکار محمد اقبال سے بھی رابطے میں تھے جس کے فون کی لوکیشن پیر عمر جان کے ساتھ تھی۔
ایف آئی اے کے حتمی چالان سے پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز کو گرفتار کرنے والی ٹیم میں شامل پولیس کانسٹیبل معشوق پیر عمر جان کی ٹیم سے رابطے میں تھا۔
عمرجان کی موبائل فارنزک میں کیا انکشاف ہوا؟
بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کے چلان کے مطابق ’ایف آئی اے نے عمر جان کی موبائل کا فارنزک کیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ 18 نومبر کو اس نے ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا سے رابطہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر شاہنواز کی کراچی سے گرفتاری کی خبر شیئر کی تھی، پیر عمر جان نے ایف آئی اے کو اپنی دو ویڈیوز پیش کی ہیں جس میں ڈاکٹر شاہنواز کے بارے میں ان کا مؤقف تھا اور پندرہ تصاویر بھی۔
ایف آئی اے کے مطابق دو تصاویر میں جعلسازی کی گئی ہے تاہم اس چالان میں ان تصاویر کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔
ایف آئی اے کے چالان میں بتایا گیا ہے کہ ڈی آئی جی جاوید سونھارو جسکانی وقوعہ کے وقت اپنے دفتر/رہائش گاہ میں موجود تھے اور ان کا صرف ایس ایس پی اسد چوہدری سے رابطہ تھا جبکہ ایس ایس پی آصف رضا اور عمر جان سے موبائل فون کے ذریعے رابطے کے ثبوت نہیں ملے تاہم پی ٹی سی ایل نمبر کا ذکر نہیں کیا گیا۔
15لاکھ کی رقم کی مشکوک منتقلی:
چلان کے مطابق ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں ایک 15 لاکھ کی رقم کی مشکوک منتقلی پر بھی بات چیت کے ثبوت ملے ہیں تاہم یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ رقم کس کو اور کیوں دینی تھی۔
انسپکٹر عنایت کو ایس ایس پی اسد چوہدری کا میسیج وصول ہوا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ڈی آئی جی صاحب نے پانچ لاکھ بھیجے ہیں، ایک دوسرے پیغام میں وہ چوہدری اسد عنایت کو کہتے ہیں کہ ’میں آج رات پانچ لاکھ بھیج دوں گا میں نے شبیر جسکانی ( ڈی آئی جی جاوید جسکانی کے بھائی) کو کہا ہے کہ ’وہ پانچ لاکھ بھیجے گا اس نے کہا ہے ٹوٹل پندرہ لاکھ۔ وہ کال کرے گا۔‘
ایس ایس پی نے انسپکٹر کو کیا میسج کیا؟
چالان میں پیش کیے گئے انسپکٹر عنایت زرداری کے موبائل ریکارڈ کے مطابق ایس ایس پی چوہدری اسد نے عنایت زرداری کو میسیج فارورڈ کیا جس میں لکھا ہے کہ ڈی آئی جی جاوید جسکانی کا میسیج ہے اس میسیج میں لکھا ہے کہ ’عنایت کو کہو بڑے صاحب سے سردار شاہ کو ایک فون کروائے۔‘
یاد رہے کہ صوبائی وزیر سردار شاہ نے سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پہلی بار اس مقابلے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔
ایس ایس پی چوہدری نے ایک اور میسیج فارورڈ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’عنایت کو کہو کہ ادی سے ہوم منسٹر کو کال کروا دے۔ میں نے ان کو میسیج کیا ہے پر میرا میسیج شاید اتنے کام کا نہ ہو۔‘
ایف آئی اے نے کس کیخلاف ٹرائل کی گزارش کی؟
ایف آئی اے کے حتمی چالان میں تحریک لبیک کے رہنما پیر عمر جان سرہندی، ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی آصف رضا، ایس ایس پی اسد علی چوہدری، عنایت علی زرداری، ہدایت اللہ، ندار پرویز، غلام قادر، نیاز محمد کھوسو، دانش بھٹی سمیت 23 ملزمان کے خلاف ٹرائل کی گزارش کی گئی ہے۔