ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
پطرس بخاری کے مطابق حفیظ جالندھری کے قلم کی ایک بے پروا جنبش سے قدرت کی رنگینیاں تصویریں بن بن کر آنکھوں کے سامنے آتی ہیں۔ ایم ڈی تاثیر لکھتے ہیں کہ ساون رت، گھنگور گھٹائوں میں کھیلتی ہوئی بجلی، موروں کی جھنکار، پپیہوں کی پکار، برسات کی ٹھنڈی ہوا، ہوا میں اڑتے ہوئے آنچل ، آنکھوں میں تمنائے دید اور فراق کے آنسو، دل کو انتظار کی دھڑکن یہ ایک مست کیف شاعر کی وہ دنیا ہے جس میں حفیظ گاتا پھرتا ہے۔کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
ملک میں جہاں مبینہ کرپشن میں نامزد اعلیٰ سیاسی شخصیات کے ناموں پر تعلیمی ادارے تک قائم ہوگئے وہیں خالق ترانہ پاکستان کے نام پر نہ تو کوئی سڑک ہے ، نہ کوئی پارک اور نہ ہی کوئی تعلیمی ادارہ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری اکیس دسمبر انیس سو بیاسی کو 82 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
حفیظؔ اپنی بولی محبت کی بولی نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی