ویب ڈیسک: پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے معاملے پر دائر درخواستوں پر فیصلہ فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ کرلیا۔جو اب سنادیا گیا ہے جس میں سنی اتحاد کونسل کی تمام درخواستیں خارج کردی گئی ہیں۔ فیصلے پر کسی جج نے اعتراض نہیں کیا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں پشاور ہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن سے دیگر سیاسی جماعتوں کی سیٹوں کے حوالے سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت آج صبح تک ملتوی کردی تھی۔
آج سماعت کے آغاز پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کچھ سوال لارجر بینچ نےچھوڑے ہیں، جس پر عدالت کو اسسٹ کرنے کی کوشش کروں گا۔ الیکشن کمیشن نےانتخابی نشان چھینا اور اسی عدالت نے واپس بحال کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ اس فیصلےکےبعدپی ٹی آئی کےحمایت یافتہ امیدوارسامنے آئے،تمام ارکان پی ٹی آئی کی چھتری تلے پاس ہوئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ قومی اسمبلی میں 86،پنجاب اسمبلی میں ، کے پی اسمبلی میں 90ارکان، سندھ اسمبلی میں 9 اور بلوچستان میں ایک ممبر نے سنی اتحاد کونسل جوائن کی۔ سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 106 تھری ایم کے تحت مخصوص نشستوں کی اہل ہے۔ پارٹی کیخلاف چھ مختلف درخواستوں میں3 موقف اختیار کئے گئے۔ اعتراض یہ تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، مخصوص نشستوں کی لسٹ فراہم نہیں کی۔الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو سیٹیں نا دی جائیں باقی دیگر پارٹیوں کو مخصوص نشستیں دی جائیں۔
علی ظفر نے کہا کہ یہ کیس قومی اسمبلی اور کے پی اسمبلی حد تک محدود ہے، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں قبضہ گروپس کو دی گئیں۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ قبضہ گروپس نہ کہیں،انہیں سیٹیں تو الیکشن کمیشن نے دی ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ کل سوال آیا کہ کیا قومی اسمبلی نشستوں پر اس کورٹ کا اختیار بنتا ہے؟ عدالت نے 6 سوالات اٹھائے وہ انتہائی اہم ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ہماری78 مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کیں، دیگرسیاسی جماعتیں ہماری نشستیں لینےالیکشن کمیشن پہنچ گئی۔ الیکشن کمیشن نےکہاکہ سنی اتحاد سیاسی جماعت نہیں ہے، سنی اتحاد نےالیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کے لیے فہرست نہیں دی۔دیگرسیاسی جماعتیں مخصوص نشست قبضہ مافیانکلیں۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر صاحب آپ اس کو قبضہ مافیا نہیں کہہ سکتے،یہ فیصلہ الیکشن کمیشن نےکیاہے، قبضہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے بھی کہا کہ ، ’بیرسٹر صاحب آپ سخت الفاظ کا استعمال کیوں کررہےہیں‘، اس پر علی ظفر نے کہا کہ میں عدالت سےمعافی مانگتاہوں،میرے ان الفاظ کو حذف کیاجائے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کسی پارٹی کوالیکشن سےنکالاتو یہ آرٹیکل17کی خلاف ورزی ہوگی، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے دور رکھا گیا۔ الیکشن کمیشن پارلیمانی،پولیٹیکل پارٹی کےفرق میں کنفیوزہے۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ انتخابات میں کوئی جنرل نشست نہیں جیت سکے۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ مخصوص نشست کی تقسیم جنرل سیٹ کےتحت ہوتی ہے۔
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ جنرل نشست کےتناسب میں مخصوص نشست الاٹ کی جائےگی، کیا آپ نےسنی اتحاد میں شامل ہونےسےپی ٹی آئی کاکیس کمزورنہیں کیا، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے،ہمارے سامنے کچھ مسائل تھے، انتخابی نشان نہیں تھااورانٹر پارٹی انتخابات بھی کالعدم ہوئےتھے۔
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ آپ نے جو فیصلے دیے اس میں پی ٹی آئی کا کیس مضبوط ہے مگر سنی اتحاد کونسل نے تو الیکشن ہی نہیں لڑا۔ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے پارٹی ہیڈ نے خود الیکشن نہیں لڑا؟۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ہمیں اپنے فیصلے کے مستقبل اثرات بھی دیکھنے ہوں گے، الیکشن ایکٹ 2017 تمام سیاسی جماعتوں نےمل کرپاس کیاتھا، جس پر بیرسٹر ظفر نے کہا کہ یہ جو حالات بنے پہلی مرتبہ ایسا ہوا۔
جسٹس اعجازانور نے کہا کہ دیگرسیاسی جماعتوں کومخصوص نشست کاحصہ مل چکا؟ کیایہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہنی چاہیئے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ بالکل خالی بھی رہنی چاہیئے، دوبارہ سے الیکشن ہونا چاہیئے۔
عدالت نے کہا کہ کیا ایسا کبھی پہلے ہوا ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ باپ پارٹی کو2018میں مخصوص سیٹ الاٹ کی گئی ہیں۔
جسٹس سید ارشد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےفیصلےمیں کہا آپ نے وہ دستاویزات نہیں دیں، جس پر پی ٹی آئی رہنما علی ظفر کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
باب کا حق تو زیادہ ہے، جسٹس اعجازانور کے ریمارکس پرعدالت میں قہقہہ لگ گیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمیں پھرآپ بیٹا سمجھ لیجیئے، کے پی میں اکثریت کو کیسے مخصوص نشستوں سےمحروم رکھا جائے، آئین کو وقت کی ضرورت کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے، یہاں پر پارٹی کو ووٹ ملا ہے، جس پر جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ پارٹی کو ووٹ ملا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین میں کہی نہیں لکھا کہ لسٹ کب دینا ہے، بہتریہ ہوگاکہ انتخابات کےبعدمخصوص نشستوں کا الیکشن شیڈول آجائے، سیکشن 104 کہتا ہے کہ ایک دن مخصوص ہوگا، یہ نہیں کب ہوگا، دوسری لسٹ پر کوئی پابندی نہیں کہ آپ نہیں دے سکتے، 104 سیکشن ہم سے ہمارا آئینی حقوق نہیں چھین رہا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کےلیے ہیں، سندھ ہائیکورٹ میں درخواستیں ان درخواستوں کے سے مماثلت رکھتی ہیں، تمام درخواستوں میں ایک ہی درخواست گزار ہے، درخواستوں میں ایک ہی پیٹرن کو فالو کیا گیا ہے، لاہور ہائیکورٹ میں بھی لارجر بینچ کے لیے استدعا کی گئی ہے۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ پہلی درخواست ہمارے سامنے موجود ہیں، دیگر صوبوں کےہائیکورٹ اپنے فیصلے دیں گے۔
بعدازاں عدالت نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے معاملے پر تمام وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔جسے سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی تمام درخواستیں خارج کردی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ 7 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے مخصوص نشستوں سے متعلق حکم امتناع میں 13 مارچ تک توسیع کی تھی۔
پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے فیصلے پراسپیکر قومی اسمبلی کو اگلے دن تک ممبران سے حلف نہ لینے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ کیس کی سماعت کیلئے 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دیا تھا۔