سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کا تحریری فیصلہ جاری کردیا

12:33 PM, 14 Oct, 2022

احمد علی
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے، اکثریتی فیصلہ 95 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے کا آغاز چیف جسٹس مارشل کے قول سے کیا گیا ہے، چیف جسٹس مارشل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا کام صرف آئین کی تشریح کرنا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ منحرف رکن کا پارٹی ہدایات کے خلاف ڈالا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہیں ہوگا،اراکینِ پارلیمنٹ کو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے، اظہارِ رائے کی اس آزادی کا استعمال آرٹیکل 63 اے کی روشنی میں ووٹ ڈالتے ہوئے نہیں ہو سکتا۔ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے پر اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کرتے ہیں، صدارتی ریفرنس پر اٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات وکلاء محاذ کیس میں سپریم کورٹ پہلے بھی دے چکی ہے، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پارلیمانی پارٹی میں اعتماد کھو بیٹھے تو اسے عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، رکن اسمبلی کا پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنا پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے تباہ کن ہے، ارکان اسمبلی کے اظہارِ رائے کے حق کو وکلا محاذ کیس میں بھی تحفظ دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ارکان اسمبلی ووٹ کے معاملے پر پارٹی کے اندر بحث، اتفاق یا عدم اتفاق کر سکتے ہیں،جب معاملہ ووٹ ڈالنے کا آئے گا تو پھر صورتحال مختلف ہوگی، ووٹ ڈالتے وقت آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا، یہ دلیل دی گئی کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے سے پارلیمانی پارٹی میں امریت کو فرغ ملے گا، آمریت کو فروغ ملنے کی دلیل سے ہم متفق نہیں ہیں،پارٹی پالیسی کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کو شمار کرنا جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔ جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا تھا، جسٹس مظہر جسٹس جمال نے منحرف رکن کا ووٹ گنتی میں شمار کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ چیف جسٹس بندیال، جسٹس اعجاز اور جسٹس منیب نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔
مزیدخبریں