ویب ڈیسک: روسی صدر ولادی میر پوٹن نے کہا ہے کہ اگر یوکرین ان چار خطوں سے جنہیں ماسکو نے دو ہزار بائیس میں روس میں شامل کیا تھا، اپنی فوجیں واپس بلانا شروع کر دے اور نیٹو میں شمولیت کے منصوبوں کو ترک کردے تو وہ فوری طور پر یوکرین میں جنگ بند کرکے کیف کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیں گے۔
وہ جمعے کے روز ماسکو میں روسی وزارت خارجہ میں تقریر کر رہے تھے۔
پوٹن کا کہنا تھا کہ انکی تجویز کا مقصد یوکرین میں تصادم کے مسئلے کو التواء میں ڈالنے کے بجائے حتمی طور پرحل کرنا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کریملن بغیر کسی تاخیر کے مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہے۔
پوٹن نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب اٹلی میں جی7 ملکوں کا اجلاس ہو رہا ہے اور سوئیزر لینڈ بھی یوکرین میں قیام امن کی جانب کوشش میں اس اختتام ہفتہ بہت سےعالمی رہنماؤں کے اجتماع کی میزبانی کی تیاری کر رہا جس میں ماسکو سے کسی کو مدعو نہیں کیا گیا۔
امریکہ اور یوکرین نے اس ہفتے ایک دس سالہ سیکیورٹی معاہدے پر بھی دستخط کئے ہیں، جسے انہوں نے اپنے تعلقات میں ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔
روس نے فروری دو ہزار بائیس میں یوکرین پر اسکے بعد بھرپور حملہ کیا تھا جب یوکرینی افواج نے دار الحکومت کی جانب روسی حملے کو پسپا کر دیا تھا۔ زیادہ تر لڑائی جنوب اور مشرق میں مرکوز رہی اور روس نے غیر قانونی طور پر یوکرین کے مشرق اور جنوب میں علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔ تاہم ان میں سے کسی بھی خطے پر اسکا مکمل کنٹرول نہیں ہے۔
روسی لیڈر نے امن کے لئے جن مزید شرائط کی فہرست پیش کی ہے انکے مطابق یوکرین جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرے گا اور اسکی حیثیت ایک غیر جوہری ملک کی رہے گی، اسکی افواج پر پابندیاں ہونگی۔ اور یوکرین میں روسی ز بان بولنے والی آبادی کے مفادات کا تحفظ کرنا ہو گا۔
پوٹن نے کہا کہ یہ تمام شرائط بنیادی بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہونی چاہئیں اس میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کے روس کے خلاف مغرب کی عائد کردہ تمام پابندیاں اٹھائی جائیں۔
پوٹن نے کہا کہ اگر کیف اور مغربی دارالحکومت انکی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں تو یہ انکا معاملہ ہے۔ خونریزی جاری رہنا انکی سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری کا معاملہ ہے۔