ویب ڈیسک: وزیردفاع خواجہ آصف کے ساتھ چند روز قبل برطانیہ کے نجی دورے کے دوران میٹرو ٹرین میں قتل کی دھمکی دینے اور ہراساں کیے جانے کا واقعہ رونما ہوا۔ جس کی اب باقاعدہ درخواست پولیس کو دی جاچکی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برطانوی قانون میں ان الزامات کی سزا کیا ہے اور پاکستان میں ہراساں کرنے والوں کیخلاف کیا کارروائی ہوسکے گی؟
وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ 'کانسپریسی ٹو کمٹ کرائم' کے تحت اگر کوئی شخص نفرت کی بنیاد پر کسی کو گالی نکالتا ہے اس کی عزتِ نفس پر حملہ کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔
ہیٹرڈ ایکٹ' کے تحت ایسا نہیں ہے کہ جب تک کوئی ایک شخص کسی دوسرے شخص کو ہاتھ لگاتا ہے تو جب ہی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے بلکہ دھمکی دینے پر بھی شکایت کنندہ کی درخواست پر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں نفرت آمیز واقعہ ہونے پر شکایت کنندہ پولیس کو تحریری درخواست دیتا ہے جس پر پولیس شواہد اکٹھے کرتی ہے اور شکایت درج کر لیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض کیسز میں جرم ثابت ہونے پر لوگوں کو اپنی ملازمت سے بھی محروم ہونا پڑا۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی 'ایف آئی اے' ذرائع کے مطابق خواجہ آصف کے معاملے پر تاحال کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی گئی ہے۔
ذرائع نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ بعض کیسوں کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہراساں کرنے والا شخص پاکستان کا شہری ہی نہیں جس پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔