ویب ڈیسک: قومی اسمبلی اور سینیٹ سے آج ہی آئینی ترمیمی بل منظور کرانے کا فیصلہ ہوگیا، حکومت نے مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرلی اور جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے تحفظات دور کردیے جبکہ پارلیمان کی خصوصی کمیٹی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کے وقت تبدیل کردیے گئے، وفاقی کابینہ کا اجلاس کچھ دیر میں شروع ہوگا، آئینی بل کے مسودے کی منظوری دی جائے گی۔
حکومت نے فضل الرحمان کے تحفظات دور کردیے
آئینی ترمیم پر حکومت نے جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کردیے، حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان بلاول بھٹوزرداری نے ثالث کا کردار ادا کیا۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیم سے متعلق حکومت کا ساتھ دیں گے، آئینی ترمیم ایک جامع پیکج ہے جس میں آئینی عدالت بنائی جائے گی، آئینی عدالت کے لیے ججز کی تقرری کا بھی طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئینی عدالت کے لیے نئے سرے سے ججز کی تقرری ہو گی، آئینی عدالت بنانے کا مقصد عام سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان بلاول بھٹوزرداری نے ثالث کا کردار ادا کیا، گزشتہ رات ہونے والی ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے اختلافی معاملات کو سلجھایا جس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم آج پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے نمبر پورے ہیں، منحرف ارکان کے ووٹ سے متعلق بھی ترامیم کی جا رہی ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کے لیے بھی مسودہ تیار ہے۔
حکومتی ذرائع نے سینیٹ میں بھی آئینی ترامیم کے لیے نمبر گیم مکمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے نمبر پورے ہیں۔
حکومت اور جے یو آئی (ف) کے درمیان معاملات طے نہ پاسکے
حکومت اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے درمیان معاملات طے نہ پاسکے، حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم سے متعلق آج بل پیش نہ کیے جانے کا بھی امکان ہے۔
وفاقی کابینہ اجلاس کا وقت تبدیل
آئینی پیکج میں ردوبدل کا سلسلہ جاری ہے، آخری وقت میں آئینی ترامیم کے مسودے میں تبدیلیاں کردی گئیں تاہم وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کا وقت میں تبدیل کردیا گیا۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس 3 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوگا، اس سے پہلے وفاقی کابینہ کا اجلاس 12 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترامیم کے مسودے کی منظوری دی جائے گی۔
قومی اسمبلی اجلاس کا وقت تبدیل
قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اہم اجلاس کا وقت تبدیل کر دیا گیا، اجلاس اب شام 4 بجے ہوگا، ایجنڈے میں آئینی ترامیم کا بل شامل نہیں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس آج ساڑھے 11 بجے طلب کیا گیا تھا جس کا 6 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کر دیا گیا تھا تاہم اب قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت تبدیل کر دیا گیا ہے، اجلاس اب ساڑھے 11 بجے کے بجائے شام 4 بجے ہوگا۔
قومی اسمبلی اجلاس کے وقت میں تبدیلی اسپیشل پارلیمانی کمیٹی کی خصوصی سفارش پر کی گئی، خصوصی اجلاس کچھ وقت جاری رہا، کمیٹی میں شامل اراکین نے اینی اپنی قیادت سے مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا۔
کمیٹی نے صبح 10 بجے کی میٹنگ کے بعد اسپیکر سے درخواست کی کہ چند اہم امور پر فیصلوں کے لیے وقت درکار ہے تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے کمیٹی کی درخواست پر آج کے اجلاس کا وقت تبدیل کر دیا اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اجلاس کے وقت کی تبدیلی کا نوٹس جاری کردیا۔
قومی اسمبلی اجلاس کے 6 نکاتی ایجنڈے میں آئینی ترامیم کا بل شامل نہیں جبکہ نمبر پورے ہونے پر آئینی ترامیم کا بل سپلیمنٹری ایجنڈے کے طور پر شامل کیا جائے گا۔
آج ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں وقفہ سوالات کے علاوہ 2 توجہ دلاؤ نوٹس شامل ہیں۔
صدرکے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے خطاب پر اظہار تشکر بھی ایجنڈے میں شامل ہے، اس کے علاوہ اراکین کی جانب سے نقطہ اعتراضات اٹھانے کا معاملہ بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کا مجوزہ آئینی ترامیم کا بل ضمنی ایجنڈے کے ذریعے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری کے لیے جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کا کردار اہمیت اختیار کر گیا ہے، چند روز کے دوران وزیراعظم شہباز شریف دو مرتبہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر چکے ہیں جبکہ صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی سربراہ جے یو آئی سے ملاقات کر کے آئینی ترمیم میں ساتھ دینے کی درخواست کی تھی۔
اس کے علاوہ گزشتہ رات پاکستان تحریک انصاف کے وفد نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی تھی۔
سینیٹ اجلاس آج شام 4 بجے طلب
پاکستان کے ایوان بالا ( سینیٹ) کا اجلاس آج شام 4 بجے طلب کرلیا گیا، تاہم آئینی ترامیم سے متعلق کوئی آئٹم ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
سینیٹ سیکریٹریٹ نے اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا جاری کردیا، سینیٹ اجلاس کے ایجنڈے میں 2 توجہ دلاؤ نوٹس میں شامل ہیں، اس کے علاوہ نائب وزیر اعظم اسحق ڈار کی وقفہ سوالات معطل کرنے سے متعلق ایک تحریک بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
ایوان میں صدارتی خطاب پر صدر آصف علی زرداری کے تشکر سے متعلق تحریک بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
ن لیگ کا سینیٹ و قومی اسمبلی میں ارکان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ اور قومی اسمبلی مین اپنے ارکان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے اراکین قومی اسمبلی کو جبکہ سینیٹ میں ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے ن لیگ کے سینیٹرز کو مراسلہ بھیجا ہے۔
مراسلے میں ن لیگ کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو آج ایوان میں حاضر رہنے اور آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے تمام ممبران کے لیے آئینی ترمیم میں ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔
پارلیمانی لیڈرز کے مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی رکن ووٹ ڈالنے سے اجتناب نہ کرے۔
ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئینی ترامیم آج پیش کیے جانے کا امکان
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئینی ترامیم آج پیش کیے جانے کا امکان ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت قائم کی جائے گی، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججوں کی مدتِ ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے اور ہائیکورٹس کے ججوں کی مدتِ ملازمت 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کرنے کی تجویز شامل ہے جبکہ جبکہ چیف جسٹس کی مدت میں 3 سال کی توسیع ہوگی، جج تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کا امکان ہے۔
ممکنہ قانون سازی کے مسودے میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو ایک بنانے کی تجویز آئینی ترمیم کا حصہ ہوگی۔
پارلیمان میں نمبرز کس کے حق میں ہیں؟
قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ووٹ درکار ہوں گے جبکہ حکومتی گنتی 211 ہے، سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہوں گے جبکہ حکومتی گنتی 54 ووٹ موجود ہیں۔
مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 211 حکومتی نشستوں میں مسلم لیگ ن کے 110، پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم کے 22، آئی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے 4-4 ارکان شامل ہیں جبکہ مسلم لیگ ضیا اور بی اے پی کے 1-1 رکن بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر 101 ارکان موجود ہیں جن میں سنی اتحاد کونسل کے 80، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان، جے یو آئی ف کے 8، بی این پی، مجلس وحدتِ مسلمین اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے 1-1 رکن بھی اپوزیشن بینچوں کا حصہ ہیں۔
آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو مزید 13 ارکان کی حمایت درکار ہے، جے یو آئی ف کے 8 اراکین شامل ہونے پر بھی 5 ووٹ مزید درکار ہوں گے۔