سینیٹ: فیصل واوڈا کی خالی نشست پر الیکشن کا اعلان
08:55 AM, 16 Feb, 2022
اسلام آباد: ( پبلک نیوز) الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کی خالی نشست پر الیکشن کا اعلان کرتے ہوئے اس کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سیینٹ کی خالی نشست پر 9 مارچ کو سندھ اسمبلی کی عمارت میں پولنگ ہوگی۔ کاغذات نامزدگی 17 سے 19 فروری تک جمع کرائے جا سکیں گے۔ امیدواروں کی ابتدائی فہرست 21 فروری کو جاری کی جائے گی۔ کاغذات نامزدگی کی سکروٹنی 24 فروری تک جبکہ امیدواروں کی حتمی فہرست 3 مارچ کو جاری کی جائے گی۔ پولنگ 9 مارچ کو صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگی۔ خیال رہے کہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واوڈا کی نااہلی کیخلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ فیصل واوڈا کی نااہلی کا فیصلہ چیلنج کرنے کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ پی ٹی آئی رہنما کی جانب سے وکیل وسیم سجاد عدالت عالیہ کے روبرو پیش ہوئے۔ ایڈووکیٹ وسیم سجاد کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 62 ون ایف کے تحت اپنا فیصلہ سنایا۔ حالانکہ فیصل واوڈا قومی اسمبلی کی سیٹ سے دستبردار ہو کر سینیٹر بن چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ فیصل واوڈا کیخلاف نااہلی کا فیصلہ جاری کرے۔ یہ قومی ادارہ کوئی کورٹ آف لا نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کو باسٹھ ون ایف کے تحت فیصلہ دینے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ اس پر سپریم کورٹ بھی اپنی ججمنٹ دے چکی ہے۔ پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ احکامات کی روشنی میں بیان حلفی جمع کرایا تھا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ ٹیکنیکل بنیادوں پر بات کر رہے ہیں۔ یہ مقدمہ گذشتہ تین سال سے چل رہا تھا۔ بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن نے کیا خلاف ورزی کی ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ کسی بھی وقت بیان حلفی غلط نکلا تو نتائج ہونگے۔ کیا فیصل واوڈا نے نیک نیتی ثابت کی کہ انہوں نے جھوٹا بیان حلفی نہیں دیا؟ ان کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا نے جس ملک کی شہریت چھوڑی تھی، اس کا سرٹیفکیٹ لگا دیتے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ تھا کہ بیان حلفی جمع کرانے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس فیصلے کو تسلیم کرنے کا پابند ہے۔ جمع کروایا گیا بیان حلفی سچا تھا یا جھوٹا، کیا الیکشن کمیشن اس معاملے کو سپریم کورٹ بھیجتا؟ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہمیشہ منتخب اراکین اسمبلی کے مقدمات لینے سے گریز کرتی ہے۔ یہاں معاملہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے پر عمل کا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے استفسار کیا کہ کیا گیا کہ فیصل واوڈا کل ہمیں دوسری شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں؟ اس پر وکیل نے بتایا کہ فیصل واوڈا کوئی ایڈووکیٹ نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ذمہ داری نبھائی۔ انہوں نے دوسرا پاسپورٹ منسوخ کروا کے جمع کرا دیا تھا۔ وکیل نے بتایا کہ فیصل واوڈا نے نادرا سے سرٹیفکیٹ بھی لیا کہ، وہ اب صرف پاکستانی شہری ہیں۔ ان کو تو وکیل نے کہا تھا کہ کچھ اور دستاویزات پر دستخط کرنے ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے بیان حلفی والے فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ اس پر فیصل واوڈا کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصلے کے نتائج قومی اسمبلی کی نشست والے الیکشن پر ہی ہونگے۔ فیصلے کے تحت پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی کی سیٹ پر نااہل ہونا تھا۔ وہ نشست انہوں نے چھوڑ دی تھی، اس کے بعد الیکشن کمیشن انھیں تاحیات نااہل نہیں کرسکتا۔ ایڈووکیٹ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی شخص کیلئے تاحیات نااہلی سزائے موت کے مترادف ہے۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو یہ سزائے موت کئی سیاستدانوں کو مل چکی ہے۔ پارلیمنٹ نے اس کے باوجود یہ آرٹیکل رکھا ہوا ہے۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست قابل سماعت ہونے پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔