آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانے کا پابند کرتا ہے،سپریم کورٹ
12:14 PM, 16 Feb, 2023
اسلام آباد: جسٹس اعجازالاحسن نے کہا آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانے کا پابند کرتا ہے۔ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے انہیں تبدیل کیا گیا۔ عدالت نے کہا الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا آئین کے مطابق کیئر ٹیکر سیٹ اَپ آنے کے بعد 90 دنوں میں انتخابات ہونا ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تو پھر بتائیں الیکشن ہیں کہاں؟ جسٹس مظاہر علی نے کہا آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کر دیا ہے۔ پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوئی ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کے علاوہ باقی سارے کام کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر چیف الیکشن کمشنر پیش ہوئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانے کا پابند کرتا ہے۔ مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ 90 دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں۔ شفاف انتخابات کرانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ نگراں حکومت تقرر و تبادلے نہیں کر سکتی۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ مجھے اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ آرمی سے سکیورٹی مانگی تو انکار کر دیا گیا، عدلیہ سے آر اوز مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا۔انتخابات کے لیے پیسہ مانگا تو وہ بھی نہیں دیا گیا، ایسے حالات میں کس طرح الیکشن کرائے جائیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ رپورٹ دیں جائزہ لیں گے کہ کیا مشکلات ہیں۔ لیکن 37 اضلاع ہیں سب میں ٹرانسفرز کردو یہ نہیں ہوگا، الیکشن کا اعلان کیا نہیں اور ٹرانسفرز کر دیے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا زبانی احکامات پر تبادلے کی بات درست ہے؟، چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے 23 جنوری کو فون کرکے تبادلے کا کہا تھا۔تحریری درخواست آنے پر 6 فروری کو باضابطہ اجازت نامہ دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ صرف آئین اور قانون کے پابند ہیں اپنی پالیسیوں کے نہیں،دوران سماعت بار بار سر ہلانے پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی سرزنش کر دی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں اور کیوں روسٹرم پر کھڑے سر ہلا رہے ہیں؟ عمر حمید خان نے بتایا کہ میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ جو بھی ہیں نشست پر بیٹھیں۔ عدالت عظمیٰ نے چیف الیکشن کمیشن سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔