ویب ڈیسک:2021 میں افغان طالبان کےاقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے افغانستان بدترین انسانی بحران کا شکار ہوا۔
افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال کے باعث لوگوں کو ناقابل برداشت تکالیف کا سامنا ہے اور معاشی و انسانی بحران نے حالات کو مزید گمبھیر بنا دیا۔
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے خواتین کے لئے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ افغان طالبان نے عوام کو اپنا تابع بنانے کیلیے کھلے عام تشدد کا ارتکاب کر کے خوف و ہراس پھیلایا۔
حال ہی میں طالبان کی جانب سے شمالی افغانستان میں 14 خواتین سمیت 63 سے زائد افراد کو سر عام کوڑے مارے گئے۔ ان افراد پر ہم جنس پرستی، زنا اور دیگر غیر اخلاقی تعلقات جیسے جرائم کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔
2021 کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد تنگ ذہن طالبان نے عوام کے اتنے بڑے گروہ کو سرعام کوڑے مارے۔ طالبان نے ملک بھر کے کھیلوں کے میدانوں میں سینکڑوں مردوں اور خواتین کو سرعام کوڑے مارے۔
طالبان کی جانب سے کم از کم پانچ افغانوں کو بھی گولی ماری گئی۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی گروپوں نے طالبان کے دور حکومت میں عدالتی جسمانی سزاؤں اور سرعام پھانسیوں کی شدید مذمت کی۔
اقوام متحدہ نے اس بارے میں کہا کہ " طالبان کی جانب سے ایسی سزائیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت ممنوع ہیں اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسی سزائیں دینا فوری طور پر بند کی جائیں"۔
طالبان کی جانب سے بین الاقوامی تنقید کو نظر انداز کیا گیا۔ اس سے قبل بھی افغان طالبان کی جانب سے تعلیمی مراکز میں لڑکیوں پر پابندی لگا دی گئی جو سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔ تعلیم کے علاوہ طالبان کے قبضے کے بعد افغان خواتین بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔
بین الاقوامی حقوق کی تنظیمون نے مسلسل انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تنقید اور شدید تشویش کا اظہار کیا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے افغان خواتین کے حوالے سے مطالبہ کیا کہ خواتین اور شہری آزادی پر لگائی گئی پابندیاں واپس لیں۔
انسانی حقوق کی صورتحال میں تنزلی کو روکنے اور لوگوں کی امیدیں بحال کرنے کے لیے عالمی برادری کو افغانستان کی ابتر حالت کے بارے میں فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔