(ویب ڈیسک ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے سول نافرمانی کی بندوق تانی ہوئی ہے، یہ پل پار کرنے کے بعد مذاکرات کرلیں، یوں گن پوائنٹ پر تو مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
خواجہ آصف نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈی چوک میں اموات کا کوئی علم نہیں، لطیف کھوسہ کچھ اور کہتے ہیں یہ کچھ اور کہتے ہیں، یہ بتائیں وہاں رینجرز والوں کو کس نے مارا ہے، مذمت جب ہونی چاہیے تو سب کی ہونی چاہیے، من پسند لوگوں کی مذمت نہیں ہونی چاہیے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ میری زبان آگ اگلتی ضرور ہے لیکن میں نے اس ایوان کا حال دیکھا ہوا ہے، جیل میں مجھ سے 6 ڈگری میں کمبل بھی لے لیا گیا تھا، میں نے جائے نماز پر 12 راتیں گزاریں لیکن کسی سے منتیں نہیں کیں، سیاست دانوں کو برداشت کرنا چاہیے، شکایتیں کرنے سے عزت نفس مجروع ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان (پی ٹی آئی) کی کابینہ نے صرف ایک شخص کے خلاف آرٹیکل 6 لگایا وہ میں ہوں، جس وقت میں بات کرتا ہوں تو میرا جو بھی قصور ہوتا ہے وہ سامنے آجاتا ہے، تلخیاں ایک دم ختم نہیں ہوتیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے سول نافرمانی کی بندوق تانی ہوئی ہے، یہ پل پار کرنے کے بعد مذاکرات کرلیں، یوں گن پوائنٹ پر تو مذاکرات نہیں ہوسکتے، ہماری اپنی جنگ کے اندر نقصان قوم کا ہو رہا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پارا چنار کے حالات سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے، اپنے علاقوں کے جھگڑے حل نہ کرنا ہماری ناکامی ہے، پارا چنار کے حالات صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہیں، اپنے صوبے کے حالات کی خرابی سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ جب اپنے الفاظ میں زہر گھولیں گے تو جواب میں شیرینی کیسے آئے گی؟ میں مذاکرات کا ماہر نہیں ہوں، دونوں اطراف اس معاملے کے ماہر موجود ہیں، تبدیلی ایسی آنے چاہیے کہ ایک اچھا ماحول بن سکے، زہرگھول کر ماحول نہیں بن سکتا، اس طرح مذاکرات نہیں ہوسکتے۔