وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں ختم ہو چکی ہیں،فواد چودھری
01:53 PM, 17 May, 2022
منحرف اراکین پارلیمنٹ سے متعلق آرٹیکل 63 اےکی تشریح کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے سنادیا ہے۔ فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماء فواد چودھری کا کہنا تھا کہ شہبازشریف اور حمزہ شہباز اپنی اکثریت کھو چکے ہیں،وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں ختم ہو چکی ہیں،25ارکان کی نااہلی کا فیصلہ کل سنایا جانا ہے، سپریم کورٹ کی رائے فیصلے کی ہوتی ہے،شہبازشریف اور حمزہ شہبازکو آج ہی عہدے چھوڑ دینا چاہیے،منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا. تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آج تاریخی فیصلہ دیا ہے، منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائےگا، حمزہ شہبازکوپاس25ووٹوں کا سہارا ہے، عدالت25منحرف اراکان کے مستقبل کا فیصلہ کل کرے گی، تاحیات نااہلی ہوگی اس پرپارلیمنٹ قانون سازی کرےگی، بھگوڑے ارکان کی ہماری پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے، بھگوڑے عوام کی نظر میں تو پہلے ہی گر چکے تھے، پیپلزپارٹی کےدور میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی، پیپلزپارٹی نے ہارس ٹریڈنگ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، ہم نے ہارس ٹریڈنگ کے خلاف باقاعدہ طور پر کارروائی کی، ہماری پارٹی نے ناصرف کارروائی کی بلکہ اراکین کو پارٹی سے بھی نکالا. اس سے قبل سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ نے رائے تین دو کی اکثریت سے دی ، فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔ جسٹس مظہر عالم خیل نے بھی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، آرٹیکل 63 اے اکیلے لاگو نہیں ہو سکتا، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کو سیاسی میدان میں تحفظ فراہم کرتا ہے، انحراف کرنا سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کوئی بھی ممبر ووٹ کرتا ہے تو شمار نہیں ہو گا، ریفرنس کا چوتھا سوال بغیر جواب کے واپس کرتے ہیں، اس حوالے سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی تاحیات نااہلی کی درخواستیں خارج کر دیں ہیں۔ جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ 3ججز کی رائے سے ہم متفق نہیں ہیں، آرٹیکل 63 ایک مکمل شق ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی کے بعد اپیل کا حق ہوتا ہے، ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات پر رائے نہیں دے سکتے، ووٹنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں ایک طریقہ موجود ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل میں سوال کیا کیا آرٹیکل 63اےایک مکمل کوڈ ہے، کیا آرٹیکل 63اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا پارٹی پالیسی سےانحراف کر کےووٹ شمار ہو گا؟ اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالت ایڈوائزی اختیارمیں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے، صدارتی ریفرنس اورقانونی سوالات پرعدالت کی معاونت کروں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے؟ کیا آپ کہہ رہے ہیںکہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا ، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر فائل ہوا۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ حکومت کاموقف ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ میراموقف بطور اٹارنی جنرل ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لیکر ریفرنس فائل کرناچاہیے تھا،اگر قانونی ماہرین کی رائےمختلف ہوتی توصدر ریفرنس بھیج سکتے تھے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے اور سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر 2 فریقین سامنے آئے ہیں، ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں، دوسرا فریقین سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا۔ تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں، صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے۔ اس پر اشتراوصاف نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل نہیں آئینی معاملہ ہے، عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن در تسلیم خم کرتا ہوں، صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ پر رائے مانگی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کےبعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا۔